اندرونِ شہر کی ایک لڑکی کے نام (سرمد صہبائی)

اندرونِ شہر کی ایک لڑکی کے نام

وہ احطیاطوں کی پُر پیچ گلیوں سے

شرم و حیا کے دبے پاؤں نکلی

کہ دریا کے اُس گھاٹ خوابوں کا جنگل تھا

اُس کے لہو میں

جوانی کی کچی مہک سرسرائی

گھنے کھیت میں

پیاسی خواہشوں کے چشمے پہ اس نے

کنوارے بدن کو

پُراسرار عریاں کی حٰرت سے دیکھا

برستے ہوئے

گھور بادل کی لذت میں وہ دیر تک

جھاگ بن کر پگھلتی رہی

دیر تک

دیر تک

دھیان کی گھاٹیوں پر

گھروں کی طرف لوٹتے

واپسی کے نشاں مٹ چکے تھے

مہک اس کے ہونٹوں پہ پاگل ہوئی تھی

گھٹا اس کے سینے پہ بوجھل ہوئی تھی

وہ پل بھر کو

خواہش کے دریا پہ بہتا ہوا پھول تھی

گھر کی بھاری چقوں کے شگافوں میں

اُڑتی ہوئی دھول تھی !

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *