اندرونِ شہر کی ایک لڑکی کے نام (سرمد صہبائی)
اندرونِ شہر کی ایک لڑکی کے نام وہ احطیاطوں کی پُر پیچ گلیوں سے شرم و حیا کے دبے پاؤں نکلی کہ دریا کے اُس گھاٹ خوابوں کا جنگل تھا اُس کے لہو میں جوانی کی کچی مہک سرسرائی گھنے کھیت میں پیاسی خواہشوں کے چشمے پہ اس نے کنوارے بدن کو پُراسرار عریاں کی …