Category «سرمد صہبائی»

اندرونِ شہر کی ایک لڑکی کے نام (سرمد صہبائی)

اندرونِ شہر کی ایک لڑکی کے نام وہ احطیاطوں کی پُر پیچ گلیوں سے شرم و حیا کے دبے پاؤں نکلی کہ دریا کے اُس گھاٹ خوابوں کا جنگل تھا اُس کے لہو میں جوانی کی کچی مہک سرسرائی گھنے کھیت میں پیاسی خواہشوں کے چشمے پہ اس نے کنوارے بدن کو پُراسرار عریاں کی …

سرد راتوں کی رِدا ، ڈوبتی نیندوں کی تھکن (سرمد صہبائی)

ان کہی باتوں کی تھکن سرد راتوں کی رِدا ، ڈوبتی نیندوں کی تھکن صبح کے ہاتھوں سے ٹوٹی مرے خوابوں کی تھکن شل ہوئے جاتے ہیں ہر پیڑ کے سوکھے بازو ڈھل گئی زرد خزاؤں میں بہاروں کی تھکن باغ میں پھیلتی تنہائی کے بوجھل پاؤں گِرتے پتوں کی تھکن ، گرم دوپہروں کی …

جل پری! جل پری! (سرمد صہبائی)

جل پری اور سورج جل پری! جل پری! تو سمندر کی آغوش سے دھوپ کا ہاتھ تھامے ہوئے دن کے ساحل پہ چلتی ہے کیسے صدف در صدف تیرے پاؤں میں کھِلتی ہے رنگوں کی بارہ دری جل پری ! جل پری ! صبح کے صحن میں رنگ تیرا بدن چوم کر تتلیوں کا جنم …

کون ہے کس نے پکارا صدا کیسے ہوئی (سرمد صہبائی)

کون ہے کس نے پکارا صدا کیسے ہوئی یہ کرن تاریکئی شب سے رہا کیسے ہوئی اک اک پل میں اتر کر سوچتا رہتا ہوں میں نور کس کا ہے مرے خوں میں ضیا کیسے ہوئی خواہشیں آئیں کہاں سے کیوں اچھلتا ہے لہو رُت ہری کیوں کر ہوئی پاگل ہوا کیسے ہوئی اس کے …