سرد راتوں کی رِدا ، ڈوبتی نیندوں کی تھکن (سرمد صہبائی)

ان کہی باتوں کی تھکن

سرد راتوں کی رِدا ، ڈوبتی نیندوں کی تھکن

صبح کے ہاتھوں سے ٹوٹی مرے خوابوں کی تھکن

شل ہوئے جاتے ہیں ہر پیڑ کے سوکھے بازو

ڈھل گئی زرد خزاؤں میں بہاروں کی تھکن

باغ میں پھیلتی تنہائی کے بوجھل پاؤں

گِرتے پتوں کی تھکن ، گرم دوپہروں کی تھکن

یاد کے دشت میں سہمے ہوئے آہو کی طرح

گھومتی پھر رہی ہے مری سوچوں کی تھکن

آنکھ میں آتے زمانوں کے خلاؤں کا سکوت

دھیان میں بیتی ہوئی ہانپتی صدیوں کی تھکن

دِل پہ اک بار سا خاموش تمناوں کی دھول

ہونٹ پر جمتی ہوئی ان کہی باتوں کی تھکن

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *