اگر کچھ تھی تو بس یہ تھی تمنا آخری اپنی (شعری بھوپالی)

اگر کچھ تھی تو بس یہ تھی تمنا آخری اپنی

کہ وہ ساحل پہ ہوتے اور کشتی ڈوبتی اپنی

ہمیں تو شامِ غم میں کاٹنی ہے زندگی اپنی

جہاں وہ ہیں وہیں اے چاند لے جا چاندنی اپنی

نہ ہے یہ اضطراب اپنا نہ ہے یہ بے خودی اپنی

تری محفل میں شاید بھول آیا زندگی اپنی

بصد شوق و مسرت اٹھ کے جلوؤں کی بلائیں لیں

یہ کس منظر پہ جاپہنچی نظر بہکی ہوئی اپنی

تری محفل سے اب جائیں تو اٹھ کر کہاں جائیں

کہ دنیا بھی یہیں اپنی ہے عقبیٰ بھی یہیں اپنی

مقدر سے کہیں ملتا ہے موقع جان دینے کا

لٹا دے دولتِ غم پر متاعِ زندگی اپنی

یہیں ٹکرا کے رہ جاتی ہیں نظریں اہلِ عالم کی

ترے جلوؤں کا پردہ بن گیا دیوانگی اپنی

مناسب ہو تو او ظالم گھڑی بھر کے لیے آ جا

بجھانی ہے ترے دامن سے شمعِ زندگی اپنی

وہیں چلیے وہیں چلیے تقاضا ہے محبت کا

وہ محفل ہائے جس محفل میں دنیا لٹ گئی اپنی

نہ جلوہ ہے، نہ پردہ ہے، نہ رنگینی ہے اے شعری

خود اپنے شعبدوں سے کھیلتی ہے بے خودی اپنی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *