عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے (عبیداللہ علیم)

عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے

اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے

ملے ہیں یوں تو بہت آؤ اب ملیں یوں بھی

کہ روح گرمئ انفاس سے پگھل جائے

محبتوں میں عجب ہے دلوں کو دھڑکا سا

کہ جانے کون کہاں راستہ بدل جائے

میں وہ چراغِ سرِ رہگزارِ دنیا ہوں

جو اپنی ذات کی تنہائیوں میں جل جائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *