آنکھیں جو ہیں اپنے چہرے پر، اک ساون ہے اک بھادوں ہے (عدیم ہاشمی)

آنکھیں جو ہیں اپنے چہرے پر، اک ساون ہے اک بھادوں ہے

اے غم کی ندی تو فکر نہ کر، اس وقت بہت سیراب ہیں ہم

اس وقت تلاطم خیز ہیں ہم، گردش میں تمہیں بھی لے لیں گے

اس وقت نہ تیر اے کشتئی دل، اس وقت تو خود گرداب ہیں ہم

اک ہنس پرانی یادوں کا، بیٹھا ہوا کنکر چنتا ہے

تپتی ہوئی ہجر کی گھڑیوں میں سوکھا ہوا اک تالاب ہیں ہم

اے چشمِ فلک، اے چشمِ زمیں، ہم لوگ تو پھر آنے کے نہیں

دو چار گھڑی کا سپنا ہیں دو چار گھڑی کا خواب ہیں ہم

کیا اپنی حقیقت، کیا ہستی، مٹی کا ایک حباب ہیں ہم

دو چار گھڑی کا سپنا ہیں دو چار گھڑی کا خواب ہیں ہم

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *