تمہارے شہر کا موسم بڑا سہانا لگے
میں اک شام چرا لوں اگر برا نہ لگے
تمہارے بس میں اگر ہو تو بھول جاؤ مجھے
تمہیں بھلانے میں شاید مجھے زمانہ لگے
وہ پھول جو میرے دامن سے ہو گئے منسوب
خدا کرے انہیں بازار کی ہوا نہ لگے
نہ جانے کیا ہے کسی کی اداس آنکھوں میں
وہ منہ چھپا کے بھی جائے تو بے وفا نہ لگے
تو اس طرح سے مرے ساتھ بے وفائی کر
کہ تیرے بعد مجھے کوئی بے وفا نہ لگے
تم آنکھیں موند کے پی جاؤ زندگی قیصر
کہ ایک گھونٹ میں ممکن ہے بدمزہ نہ لگے