تیری رحمتوں کے دیار میں تیرے بادلوں کو پتہ نہیں (اعتبار ساجد)

تیری رحمتوں کے دیار میں تیرے بادلوں کو پتہ نہیں

ابھی آگ سرد ہوئی نہیں ابھی اک الاؤ جلا نہیں

میری بزمِ دل تو اجڑ چکی مرا فرشِ جاں تو سمٹ چکا

سبھی جا چکے مرے ہم نشیں مگر ایک شخص گیا نہیں

درو بام سب نے سجا لئے سبھی روشنی میں نہا لئے

 مِری انگلیاں بھی جھُلس گئیں مگر اک چراغ  جلا نہیں

غمِ زندگی! تری راہ میں شبِ ارزو! تری چاہ میں

جو اجڑ گیا وہ بسا نہیں ، جو بچھڑ گیا وہ ملا نہیں

جو دل و نظر کا سُرور تھا میرے پاس رہ کے بھی دور تھا

وہی ایک گلاب امید کا میری شاخِ جاں پہ کھلا نہیں

پسِ کارواں سرِ رہگزر میں شکستہ پا ہوں تو اس لئے

کہ قدم تو سب سے مِلا لئے میرا دل کِسی سے ملا نہیں

میرا ہم سفر جو عجیب ہے تو عجیب تر ہوں میں آپ بھی

مجھے منزلوں کی خبر نہیں اسے راستوں کا پتہ نہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *