گرے ہیں لفظ ورق پہ لہو لہو ہو کر (افتخار نسیم)

گرے ہیں لفظ ورق پہ لہو لہو ہو کر

محاذ زیست سے لوٹا ہوں سرخ رو ہو کر

اسی کی دید کو اب رات دن تڑپتے ہیں

کہ جس سے بات نہ کی ہم نے دو بدو ہو کر

بجھا چراغ ہے دل کا وگرنہ کیسے مجھے

نظر نہ آئے گا وہ میرے چار سو ہو کر

ہم اپنے آپ ہی مجرم ہیں اپنے منصف بھی

خود اعتراف کریں اپنے روبرو ہو کر

اس ایک خواہش دل کا پتا چلا نہ اسے

جو درمیاں میں رہی صرف گفتگو ہو کر

میں سب میں رہتے ہوئے کس طرح بھلاؤں تجھے

ہر ایک شخص ہی ملتا ہے مجھ کو تو ہو کر

اب اس کے سامنے جاتے ہوئے بھی ڈرتا ہوں

بھلا دیا تھا جسے محو جستجو ہو کر

ہوئی نہ جذب زمیں میں تو رات کی بارش

فضا میں پھیل گئی خاک رنگ و بو ہو کر

مٹا جو آنکھ کے شیشوں سے اس کا عکس نسیمؔ

رگوں میں پھیل گیا خوں کی آرزو ہو کر

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *