کچھ لوگ بھی وہموں میں گرفتار بہت ہیں (محسن نقوی)

کچھ لوگ بھی وہموں میں گرفتار بہت ہیں

کچھ شہر کی گلیاں بھی پُراسرار بہت ہیں

ہے کون اترتا ہے وہاں جس کے لئے چاند

کہنے کو تو چہرے پسِ دیوار بہت ہیں

ہونٹوں پہ سلگتے ہوئے انکار پہ مت جا

پلکوں سے پرے بھیگتے اقرار بہت ہیں

یہ دھوپ کی سازش ہے کہ موسم کی شرارت

سائے ہیں وہاں کم جہاں اشجار بہت ہیں

بے حرفِ طلب ان کو عطا کر کبھی خود سے

وہ یوں کہ سوالی ترے خوددار بہت ہیں

تم منصف و عادل ہی سہی شہر میں لیکن

کیوں خون کے چھینٹے سرِ دستار بہت ہیں

اے ہجر کی بستی تو سلامت رہے لیکن

سنسان تیرے کوچئہ و بازار بہت ہیں

محسن ہمیں ضد ہے کہ ہو اندازِ بیاں اور

ہم لوگ بھی غالب کے طرفدار بہت ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *