Category «منیر نیازی»

تجھ سے بچھڑ کر کیا ہوں میں اب باہر آکر دیکھ (منیر نیازی)

تجھ سے بچھڑ کر کیا ہوں میں اب باہر آکر دیکھ ہمت ہے تو میری حالت آنکھ ملا کر دیکھ شام ہے گہری تیز ہوا ہے سر پہ کھڑی ہے رات رستہ گئے مسافر کا اب دیا جلا کر دیکھ دروازے کے پاس آ آ کر واپس مڑتی چاپ کون ہے اس سنسان گلی میں …

اگا سبزہ درو دیوار پر آہستہ آہستہ (منیر نیازی)

اگا سبزہ درو دیوار پر آہستہ آہستہ ہوا خالی صداؤں سے نگر اہستہ آہستہ گھرا بادل خموشی سے خزاں آثار باغوں پر ہلے ٹھنڈی ہواؤں میں شجر آہستہ آہستہ بہت ہی سست تھا منظر لہو کے رنگ لانے کا نشاں آخر یہ ہوا سرخ تر آہستہ اہستہ چمک زر کی اسے اخر مکانِ خاک میں …

اپنے گھر کو واپس جاؤ رو رو کر سمجھاتا ہے (منیر نیازی)

اپنے گھر کو واپس جاؤ رو رو کر سمجھاتا ہے جہاں بھی جاؤں میرا سایہ پیچھے پیچھے آتا ہے اس کو بھی تو جا کر دیکھو اس کا حال بھی مجھ سا ہے چپ چپ رہ کر دکھ سہنے سے تو انساں مر جاتا ہے مجھ سے محبت بھی ہے اس کو لیکن یہ دستور …

سفر میں ہے جو ازل سے یہ وہ بلا ہی نہ ہو (منیر نیازی)

سفر میں ہے جو ازل سے یہ وہ بلا ہی نہ ہو کواڑ کھول کے دیکھو کہیں ہوا ہی نہ ہو نگاہِ آئنہ معلوم ، عکس نامعلوم دکھائی دیتا ہے جو اصل میں چھپا ہی نہ ہو زمیں کے گرد بھی پانی  زمیں کی تہ میں بھی یہ شہر جم کے کھڑاہے جو تیرتا ہی …

دل جل رہا تھا غم سے مگر نغمہ گر رہا (منیر نیازی)

دل جل رہا تھا غم سے مگر نغمہ گر رہا جب تک رہا میں ساتھ مرے یہ ہنر رہا صبحِ سفر کی رات تھی تارے تھے اور ہوا سایہ سا ایک دیر تلک بام پر رہا میری صدا ہوا میں بہت دور تک گئی پر میں بلا رہا تھا جسے بے خبر رہا گزری ہے …

بیت گیا طوفان پریت کا (منیر نیازی)

خوشی کا گیت بیت گیا طوفان پریت کا بیت گیا طوفان ساری رات کٹھن تھی کتنی جیسے جلے پہاڑ درد کا بادل گرجا جیسے بندوقوں کی باڑ بجلی بن کر کڑک رہے تھے چاہت کے ارمان بیت گیا طوفان ختم ہوا وہ ارمانوں کے پاگل پن کا زور مدھم ہو کر مِٹا سلگتی تیز ہوا …

چمن میں رنگِ بہار اُترا تو میں نے دیکھا (منیر نیازی)

چمن میں رنگِ بہار اُترا تو میں نے دیکھا نظر سے دل کا غبار اُترا تو میں نے دیکھا میں نیم شب آسماں کی وسعت کو دیکھتا تھا زمیں پہ وہ حسن زار اُترا  تو میں نے دیکھا گلی کے باہر تمام منظر بدل گئے تھے جو سایئہ کوۓ یار اُترا تو میں نے دیکھا …

آس پاس کوئی گاؤں نہ دریا اور بدریا چھائی ہے (منیر نیازی)

راستے کی تھکن آس پاس کوئی گاؤں نہ دریا اور بدریا چھائی ہے شام بھی جیسے کسی پرانے سوگ میں ڈوبی آئی ہے پل پل بجلی چمک رہی ہے اور میلوں تنہائی ہے کتنے جتن کیے ملنے کو پھر بھی کتنی دوری ہے چلتے چلتے ہار گیا ہوں پھر بھی راہ ادھوری ہے گھائل ہے …