Category «منیر نیازی»

شراپ دے کے جا چکے ہیں سخت دل مہاتما (منیر نیازی)

 آتما کا روگ شراپ دے کے جا چکے ہیں سخت دل مہاتما سَمے کی قید میں بھٹک رہی ہے آتما کہیں سلونے شیام ہیں نہ گوپیوں کا پھاگ ہے نہ پائلوں کا شور ہے نہ بانسری کا راگ ہے بس اک اکیلی رادھیکا ہے اور دُکھ کی لاگ ہے ڈراؤنی صداؤں سے بھری ہیں رات …

یہ کیسا نشہ ہے میں کس عجب خمار میں ہوں (منیر نیازی)

یہ کیسا نشہ ہے میں کس عجب خمار میں ہوں تو آ کے جا بھی چکا میں انتظار میں ہوں مکاں ہے قبر جسے لوگ خود بناتے ہیں میں اپنے گھر میں ہوں یا کسی مزار میں ہوں درِ فصیل کھلا یا پہاڑ سر سے ہٹا میں اب گری ہوئی گلیوں کے مرگ زار میں …

غم کی بارش نے بھی تیرے نقش کو دھویا نہیں (منیر نیازی)

غم کی بارش نے بھی تیرے نقش کو دھویا نہیں تو نے مجھ کو کھو دیا میں نے تجھے کھویا نہیں نیند کا ہلکا گلابی سا خمار آنکھوں میں تھا یوں لگا جیسے وہ شب کو دیر تک سویا نہیں ہر طرف دیوار و در اور ان میں آنکھوں کے ہجوم کہہ سکے جو دل …

اتنے خاموش بھی رہا نہ کرو (منیر نیازی)

اتنے خاموش بھی رہا نہ کرو غمِ جدائی میں یوں کیا نہ کرو خواب ہوتے ہیں دیکھنے کے لئے ان میں جا کر مگر رہا نہ کرو کچھ نہ ہو گا گلہ بھی کرنے سے ظالموں سے گلہ کیا نہ کرو ان سے نکلیں حکائتیں شاید حرف لکھ کر مٹا دیا نہ کرو اپنے رتبے …

اک پردہ کالی مخمل کا آنکھوں پر (منیر نیازی)

پاگل پن اِک پردہ کالی مخمل کا آنکھوں پر چھانے لگتا ہے اک بھنور ہزاروں شکلوں کا دل کو دہلانے لگتا ہے اک تیز حنائی خوشبو سے ہر سانس چمکنے لگتا ہے اک پھول طلسمی رنگوں کا گلیوں میں دمکنے لگتا ہے سانپوں سے بھرے اک جنگل کی آواز سنائی دیتی ہے ہر اینٹ مکانوں …

بچھڑ گئے تو پھر بھی ملیں گے ہم دونوں اِک بار (منیر نیازی)

دکھ کی بات بچھڑ گئے تو پھر بھی ملیں گے ہم دونوں اِک بار یا اِس بستی دنیا میں یا اِس کی حدوں سے پار لیکن غم ہے تو بس اتنا جب ہم وہاں ملیں گے ایک دوسرے کو ہم کیسے تب پہچان سکیں گے یہی سوچتے اپنی جگہ پر چُپ چُپ کھڑے رہیں گے …

سامنے ہے اِک تماشائے بہارِ جاں ستاں (منیر نیازی)

خواب گاہ سامنے ہے اِک تماشائے بہارِ جاں ستاں جا بہ جا بکھری ہوئی خوشبو کی شیشیاں نیم وا ہونٹوں پہ سرخی کے مدھم نشاں ریشمی تکیے میں پیوست اس کی انگلیاں دیکھ اے دل، شوق سے یہ آرزو کا کارواں رنگ و بو کے سلسلے، لعل و گہر کی وادیاں پھر نہ جانے تو …

دشمنوں کے درمیان شام (منیر نیازی)

پھیلتی ہے شام دیکھو ڈوبتا ہے دن عجب آسماں پر رنگ دیکھو ہو گیا کیسا غضب کھیت ہیں اور ان میں اک روپوش سے دشمن کا شک سرسراہٹ سانپ کی گندم کی وحشی گر مہک اک طرف دیوار و در اور جلتی بجھتی بتیاں اک طرف سر پر کھڑا یہ موت جیسا آسماں دشمنوں

پرے سے دیکھو تو صرف خوشبو (منیر نیازی)

طلسمات پرے سے دیکھو تو صرف خوشبو ، قریب جاؤ تو اک نگر ہے طلسمی رنگوں سے بھیگتے گھر ، نسائی سانسوں سے بند گلیاں خموش محلوں میں خوبصورت طلائی شکلوں کی رنگ رلیاں کسی دریچے کی چِق کے پیچھے دہکتے ہونٹوں کی سرخ کلیاں پرے سے تکتی ہر اِک نظر اُس نگر کی راہوں …