Category «رسا چغتائی»

کچھ نہ کچھ سوچتے رہا کیجے (رسا چغتائی)

کچھ نہ کچھ سوچتے رہا کیجے آسماں دیکھتے رہا کیجے چار دیواریٔ عناصر میں کودتے پھاندتے رہا کیجے اس تحیر کے کارخانے میں انگلیاں کاٹتے رہا کیجے کھڑکیاں بے سبب نہیں ہوتیں تاکتے جھانکتے رہا کیجے راستے خواب بھی دکھاتے ہیں نیند میں جاگتے رہا کیجے فصل ایسی نہیں جوانی کی دیکھتے بھالتے رہا کیجے …

ممکن ہے وہ دن آئے کہ دنیا مجھے سمجھے (رسا چغتائی)

ممکن ہے وہ دن آئے کہ دنیا مجھے سمجھے لازم نہیں ہر شخص ہی اچھا مجھے سمجھے ہے کوئی یہاں شہر میں ایسا کہ جسے میں اپنا نہ کہوں اور وہ اپنا مجھے سمجھے ہر چند مرے ساتھ رہے اہل بصیرت کچھ اہل بصیرت تھے کہ تنہا مجھے سمجھے میں آج سر آتش نمرود کھڑا …

کہاں جاتے ہیں آگے شہر جاں سے (رسا چغتائی)

کہاں جاتے ہیں آگے شہر جاں سے یہ بل کھاتے ہوئے رستے یہاں سے وہاں اب خواب گاہیں بن گئی ہیں اٹھے تھے آب دیدہ ہم جہاں سے زمیں اپنی کہانی کہہ رہی ہے الگ اندیشۂ سود و زیاں سے انہیں بنتے بگڑتے دائروں میں وہ چہرہ کھو گیا ہے درمیاں سے اٹھا لایا ہوں …

ترے نزدیک آ کر سوچتا ہوں (رسا چغتائی)

ترے نزدیک آ کر سوچتا ہوں میں زندہ تھا کہ اب زندہ ہوا ہوں جن آنکھوں سے مجھے تم دیکھتے ہو میں ان آنکھوں سے دنیا دیکھتا ہوں خدا جانے مری گٹھری میں کیا ہے نہ جانے کیوں اٹھائے پھر رہا ہوں یہ کوئی اور ہے اے عکس دریا میں اپنے عکس کو پہچانتا ہوں …

تیرے آنے کا انتظار رہا (رسا چغتائی)

تیرے آنے کا انتظار رہا عمر بھر موسم بہار رہا پا بہ زنجیر زلف یار رہی دل اسیر خیال رہا ساتھ اپنے غموں کی دھوپ رہی ساتھ اک سرو سایہ دار رہا میں پریشان حال آشفتہ صورت رنگ روزگار رہا آئنہ آئنہ رہا پھر بھی لاکھ در  پردۃ غبار رہا کب ہوائیں تہ کمند آئیں …