Category «منیر نیازی»

کبھی چمکتے ہوئے چاند کی طرح روشن (منیر نیازی)

کبھی چمکتے ہوئے چاند کی طرح روشن کبھی طویل شبِ ہجر کی طرح غمگیں شعاعِ لعل و حنا کی طرح مہکتی ہوئیں کبھی سیاہئی کوہِ ندا میں پردہ نشیں سنبھل کے دیکھ طلسمات اُن نگاہوں کا دلِ تباہ کی رنگین پناہوں کا

اور ہیں کتنی منزلیں باقی (منیر نیازی)

اور ہیں کتنی منزلیں باقی جان کتنی ہے جسم میں باقی زندہ لوگوں کی بود و باش میں ہیں مردہ لوگوں کی عادتیں باقی اس سے ملنا وہ خواب ہستی میں خواب معدوم حسرتیں باقی بہہ گئے رنگ و نور کے چشمے رہ گئیں ان کی رنگتیں باقی جن کے ہونے سے ہم بھی ہیں …

نگہت کی آنکھوں میں گہرے رازوں کی (منیر نیازی)

چُور دروازے نگہت کی آنکھوں میں گہرے رازوں کی کچھ باتیں ہیں سات سمندر پار کے شہروں کی کالی برساتیں ہیں دیواروں سے لپٹ لپٹ کر رونے والی راتیں ہیں نگہت کے بکھرے بالوں میں سُکھ کا خزانہ ملتا ہے دل کو عجب خیالوں میں رہنے کا بہانہ ملتا ہے ایک گلابی پھول مہک کے …

ابھی اور کچھ دن اکیلے پھرو (منیر نیازی)

 تسلی ابھی اور کچھ دن اکیلے پھرو ہواؤں سے دل کی کہانی کہو سیہ بادلوں سنگ روتے رہو کبھی چاند کو تک کے آہیں بھرو بہت جلد وہ شام بھی آئے گی نئی چھب نگاہوں کو بہلائے گی مہک گزری باتوں کی مٹ جائے گی کوئی یاد دل میں نہیں آئے گی

اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو (منیر نیازی)

اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو اشکِ رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو یہ اجنبی سی منزلیں اور رفتگاں کی یاد تنہائیوں کا زہر ہے اور ہم ہیں دوستو پھرتے ہیں مثلِ موجِ ہوا شہر شہر میں آوارگی کی لہر ہے اور ہم ہیں دوستو شامِ الم ڈھلی تو …

شاموں کی بڑھتی تیرگی میں (منیر نیازی)

گوہرِ مراد   شاموں کی بڑھتی تیرگی میں برکھا کے سوکھے جنگل میں کبھی چاند کی مٹتی روشنی میں رنگوں کی بہتی نہروں میں ان اُونچی اُونچی کھڑکیوں والے اُجڑے اُجڑے شہروں میں کِن جانے والے لوگوں کی یادوں کے دیے جلاتے ہو؟ کِن بھولی بسری شکلوں کو گلیوں میں ڈھونڈنے جاتے ہو؟