کبھی چمکتے ہوئے چاند کی طرح روشن (منیر نیازی)
کبھی چمکتے ہوئے چاند کی طرح روشن کبھی طویل شبِ ہجر کی طرح غمگیں شعاعِ لعل و حنا کی طرح مہکتی ہوئیں کبھی سیاہئی کوہِ ندا میں پردہ نشیں سنبھل کے دیکھ طلسمات اُن نگاہوں کا دلِ تباہ کی رنگین پناہوں کا
اردوکےمشہورشعئرا اور ان کاکلام
کبھی چمکتے ہوئے چاند کی طرح روشن کبھی طویل شبِ ہجر کی طرح غمگیں شعاعِ لعل و حنا کی طرح مہکتی ہوئیں کبھی سیاہئی کوہِ ندا میں پردہ نشیں سنبھل کے دیکھ طلسمات اُن نگاہوں کا دلِ تباہ کی رنگین پناہوں کا
لمحہ لمحہ دم بہ دم بس فنا ہونے کا غم ہے خوشی بھی اس جگہ اے مری خوئے الم کیا وہاں ہے بھی کوئی اے رہِ ملک عدم رونق اصنام سے خم ہوئے غم کے عَلم یہ حقیقت ہے منیر خواب میں رہتے ہیں ہم
اور ہیں کتنی منزلیں باقی جان کتنی ہے جسم میں باقی زندہ لوگوں کی بود و باش میں ہیں مردہ لوگوں کی عادتیں باقی اس سے ملنا وہ خواب ہستی میں خواب معدوم حسرتیں باقی بہہ گئے رنگ و نور کے چشمے رہ گئیں ان کی رنگتیں باقی جن کے ہونے سے ہم بھی ہیں …
خزانے کا سانپ ہلاکت خیز ہے اُلفت، مری ہر سانس خونی ہے اسی باعث یہ محفل دل کی قبروں سے بھی سونی ہے اُسے زہریلی خوشبوؤں کے رنگیں ہار دیتا ہوں میں جس سے پیار کرتا ہوں اُسی کو مار دیتا ہوں
چُور دروازے نگہت کی آنکھوں میں گہرے رازوں کی کچھ باتیں ہیں سات سمندر پار کے شہروں کی کالی برساتیں ہیں دیواروں سے لپٹ لپٹ کر رونے والی راتیں ہیں نگہت کے بکھرے بالوں میں سُکھ کا خزانہ ملتا ہے دل کو عجب خیالوں میں رہنے کا بہانہ ملتا ہے ایک گلابی پھول مہک کے …
تنہائی میں نگہت اور سونا گھر تیز ہوا میں بجتے در لمبے صحں کے آخر میں لال گلاب کا تنہا پھول اب میں اور یہ سونا گھر تیز ہوا میں بجتے در دیواروں پر گہرا غم کرتی ہے آنکھوں کو نم گئے دنوں کی اُڑتی دھول
تسلی ابھی اور کچھ دن اکیلے پھرو ہواؤں سے دل کی کہانی کہو سیہ بادلوں سنگ روتے رہو کبھی چاند کو تک کے آہیں بھرو بہت جلد وہ شام بھی آئے گی نئی چھب نگاہوں کو بہلائے گی مہک گزری باتوں کی مٹ جائے گی کوئی یاد دل میں نہیں آئے گی
ایک رات کی بات باہر بارش برس برس کر میٹھے گیت سناتی ہے اور کمرے کے اندر نگہت مجھ کو دیکھے جاتی ہے میں شرما کر کہتا ہوں “دیکھو یہ اچھی بات نہیں اِسی طرح کے پاگل پن میں بیت نہ جائے رات کہیں!”
اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو اشکِ رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو یہ اجنبی سی منزلیں اور رفتگاں کی یاد تنہائیوں کا زہر ہے اور ہم ہیں دوستو پھرتے ہیں مثلِ موجِ ہوا شہر شہر میں آوارگی کی لہر ہے اور ہم ہیں دوستو شامِ الم ڈھلی تو …
گوہرِ مراد شاموں کی بڑھتی تیرگی میں برکھا کے سوکھے جنگل میں کبھی چاند کی مٹتی روشنی میں رنگوں کی بہتی نہروں میں ان اُونچی اُونچی کھڑکیوں والے اُجڑے اُجڑے شہروں میں کِن جانے والے لوگوں کی یادوں کے دیے جلاتے ہو؟ کِن بھولی بسری شکلوں کو گلیوں میں ڈھونڈنے جاتے ہو؟