Category «کیفی اعظمی»

جھکی جھکی سی نظر بے قرار ہے کہ نہیں (کیفی اعظمی)

جھکی جھکی سی نظر بے قرار ہے کہ نہیں دبا دبا سا سہی دل میں پیار ہے کہ نہیں تو اپنے دل کی جوان دھڑکنوں کو گن کے بتا مری طرح ترا دل بے قرار ہے کہ نہیں وہ پل کہ جس میں محبت جوان ہوتی ہے اس ایک پل کا تجھے انتظار ہے کہ …

لائی پھر اک لغزشِ مستانہ تیرے شہر میں( کیفی اعظمی)

لائی پھر اک لغزشِ مستانہ تیرے شہر میں پھر بنیں گی مسجدیں مے خانہ تیرے شہر میں آج پھر ٹوٹیں گی تیرے گھر کی نازک کھڑکیاں آج پھر دیکھا گیا دیوانہ تیرے شہر میں جرم ہے تیری گلی سے سر جھکا کر لوٹنا کفر ہے پتھراؤ سے گھبرانا تیرے شہر میں شاہ نامے لکھے ہیں …

اتنا تو زندگی میں کسی کے خلل پڑے (کیفی اعظمی)

اتنا تو زندگی میں کسی کے خلل پڑے ہنسنے سے ہو سکوں نہ رونے سے کل پڑے   جس طرح ہنس رہا ہوں میں پی پی کے گرم اشک یوں دوسرا ہنسے تو کلیجہ نکل پڑے   اک تم کہ تم کو فکرِ نشیب و فراز ہے اک ہم کہ چل پڑے تو بہرحال چل …

جب بھی چوم لیتا ہوں ان حسین آنکھوں کو (کیفی اعظمی)

ایک لمحہ   جب بھی چوم لیتا ہوں ان حسین آنکھوں کو سو چراغ اندھیرے میں جھلملانے لگتے ہیں خشک خشک ہونٹوں میں جیسے دل کھنچ آتا ہے دل میں کتنے آئینے تھرتھرانے لگتے ہیں پھول کیا، شگوفے کیا، چاند کیا، ستارے کیا سب رقیب قدموں پر سر جھکانے لگتے ہیں ذہن جاگ اٹھتا ہے …

جسم کی نورس کلی میں (کیفی اعظمی)

سراب جسم کی نورس کلی میں ایک احساسِ جمال جیسے ٹھنڈک چھاؤں کی دل کی نازک دھڑکن میں ایک نادیدہ خیال جیسے آہٹ پاؤں کی رات کی تاریکیوں میں ضوفگن شمعِ وصال جیسے کھُل کر پو پھٹے اور پھر تنہائیوں میں خود فروشی کا ملال زندگی کیسے کٹے؟

ایک پتنگا (کیفی اعظمی)

بھروسہ ایک پتنگا تنہا تنہا! شام ڈھلے اس فکر میں تھا یہ تنہائی کیسے کٹے گی رات ہوئی اور شمع جلی مغموم پتنگا جھوم اٹھا ہنستے ہنستے رات کٹے گی صبح ہوئی اور سب نے دیکھا راکھ پتنگے کی اڑ اڑ کر شمع کو ہر سو ڈھونڈ رہی تھی