Monthly archives: September, 2020

یار کو میں نے، مجھے یار نے سونے نہ دیا (حیدر علی آتش)

یار کو میں نے، مجھے یار نے سونے نہ دیا رات بھر طالع بیدار نے سونے نہ دیا خاک پر سنگ در یار نے سونے نہ دیا دھوپ میں سایہِ دیوار نے سونے نہ دیا شام سے وصل کی شب آنکھ نہ جھپکی تا صبح شادیِ دولتِ دیدار نے سونے نہ دیا رات بھر کیں …

گستاخ بہت شمع سے پروانہ ہوا ہے (حیدر علی آتش)

گستاخ بہت شمع سے پروانہ ہوا ہے موت آئی ہے، سر چڑھتا ہے، دیوانہ ہوا ہے اس عالم ایجاد میں گردش سے فلک کے کیا کیا نہیں ہونے کا ہے کیا کیا نہ ہوا ہے نالوں سے مرے کون نہ تھا  تنگ مرے بعد کس گھر میں نہیں سجدۃ شکرانہ ہوا ہے یاد آتی ہے …

سن تو سہی جہاں میں ہے ترا فسانہ کیا (حیدر علی آتش)

سن تو سہی جہاں میں ہے ترا فسانہ کیا کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا زیر زمیں سے آتا ہے جو گل زر بکف قاروں نے راستے میں لٹایا خزانہ کیا زینہ صبا کا ڈھونڈتی ہے اپنی مشت خاک بامِ بلند، یار کا ہے آستانہ کیا چاروں طرف سے صورتِ جاناں ہو جلوہ …