Monthly archives: December, 2019

رُخ سے پردہ اٹھا دے ذرا ساقیا (انور مرزا پوری)

رُخ سے پردہ اٹھا دے ذرا ساقیا! بس ابھی رنگِ محفل بدل جائے گا ہے جو بے ہوش وہ ہوش میں آئے گا، گرنے والا ہے جو وہ سنبھل جائے گا لوگ سمجھے تھے یہ، انقلاب آتے ہی، نظمِ کہنہ چمن کا بدل جائے گا یہ خبر کس کو تھی آتشِ گل سے ہی، تنکا …

میں نظر سے پی رہا ہوں یہ سماں بدل نہ جائے (انور مرزا پوری)

میں نظر سے پی رہا ہوں یہ سماں بدل نہ جائے نہ جُھکاو تم نگاہیں کہیں رات ڈھل نہ جائے ابھی رات کچھ ہے باقی نہ اٹھا نقاب ساقی تیرا رِند گِرتے گِرتے کہیں پِھر سنبھل نہ جائے میری زندگی کے مالک میرے دل پہ ہاتھ رکھنا تیرے آنے کی خوشی میں میرا دَم نکل …

چرخ سے کچھ امید تھی ہی نہیں (اکبر الہ آبادی)

چرخ سے کچھ امید تھی ہی نہیں آرزو میں نے کوئی کی ہی نہیں مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں چاہتا تھا بہت سی باتوں کو مگر افسوس اب وہ جی ہی نہیں اس مصیبت میں دل سے کیا کہتا کوئی ایسی مثال تھی ہی نہیں آپ …

ہو گیا عشق تری زلفِ گرہ گیر کے ساتھ (اکبر الہ آبادی)

ہو گیا عشق تری زلفِ گرہ گیر کے ساتھ سلسلہ دل کا ملا تھا اسی زنجیر کے ساتھ لذتیں کرتی ہیں انسان کو اس دنیا میں ہلاک زہر دیتی ہیں یہ ظالم شکر و شیر کے ساتھ کھُل گیا مصحفِ رخسارِ بتانِ مغرب ہو گئے شیخ بھی حاضر نئی تفسیر کے ساتھ ناتوانی مری دیکھی …

فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں (اکبر الہ آبادی)

فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں معرفت خالق کی عالم میں بہت دشوار ہے شہرِ تن میں جب کہ خود اپنا پتا ملتا نہیں زندگانی کا مزہ ملتا تھا جن کی بزم میں ان کی قبروں کا بھی اب مجھ کو پتا ملتا نہیں …

چمن کی یہ کیسی ہوا ہو گئی (اکبر الہ آبادی)

چمن کی یہ کیسی ہوا ہو گئی کہ صرصر سے بد تر صبا ہو گئی بہت دخترِ رز تھی رنگیں مزاج نظر ملتے ہی آشنا ہو گئی مریضِ محبت ترا مر گیا خدا کی طرف سے دوا ہو گئی بتوں کو محبت نہ ہوتی مری خدا کا کرم ہو گیا، ہو گئی اشارہ کیا بیٹھنے …

بنو گے خسروِ اقلیمِ دل شیریں زباں ہو کر (اکبر الہ آبادی)

بنو گے خسروِ اقلیمِ دل شیریں زباں ہو کر جہانگیری کرے گے یہ ادا نورِ جہاں ہو کر عطا کر قسمتِ تصنیفِ سعدی یارب اس گل کو پھلے پھولے زمانہ میں گلستاں، بوستاں ہو کر اگر اللہ دیتا قوتِ گفتار شمعوں کو تو دادِ ہمتِ پروانہ دیتیں یک زباں ہو کر مجالِ گفتگو کس کو …

اور بھی دورِ فلک ہیں ابھی آنے والے (اکبر الہ آبادی)

اور بھی دورِ فلک ہیں ابھی آنے والے ناز اتنا نہ کریں ہم کو مٹانے والے اٹھتے جاتے ہیں اب اس بزم سے اربابِ نظر گھٹتے جاتے ہیں مرے دل کے بڑھانے والے خاتمہ عیش کا حسرت ہی پہ ہوتے دیکھا رو ہی کے اٹھتے ہیں اس بزم سے گانے والے حدِ ادراک میں داخل …

آہ جو دل سے نکالی جائے گی (اکبر الہ آبادی)

آہ جو دل سے نکالی جائے گی کیا سمجھتے ہو کہ خالی جائے گی اس نزاکت پر یہ شمشیرِ جفا آپ سے کیوں کر سنبھالی جائے گی زندگی کی کَل ہے پیچیدہ تو خیر سانس لے لے کے چلا لی جائے گی شیخ کی دعوت میں مے کا کام کیا احتیاطاً کچھ منگا لی جائے …

ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو پی لی ہے (اکبر الہ آبادی)

ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو پی لی ہے ڈاکا تو نہیں ڈالا چوری تو نہیں کی ہے ناتجربہ کاری سے واعظ کی ہیں یہ باتیں اس رنگ کو کیا جانے پوچھو تو کبھی پی ہے اے شوق وہی مے پی، اے ہوش ذرا سو جا مہمانِ نظر اس دم اک برقِ تجلی ہے …