Monthly archives: January, 2019

وہ تو خوشبو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا (پروین شاکر)

  وہ تو خوشبو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا   ہم تو سمجھے تھے کہ اک زخم ہے بھر جائے گا کیا خبر تھی کہ رگِ جاں میں اتر جائے گا   وہ ہواؤں کی طرح خانہ بجاں پھرتا ہے ایک جھونکا ہے جو آئے گا …

اک ہنر تھا کمال تھا کیا تھا (پروین شاکر)

  اک ہنر تھا کمال تھا کیا تھا مجھ میں تیرا جمال تھا کیا تھا   تیرے جانے پہ اب کے کچھ نہ کہا دل میں ڈر تھا ملال تھا کیا تھا   ہم تک آیا تو بہر لطف و کرم تیرا وقت زوال تھا کیا تھا   جس نے تہ سے مجھے اچھال دیا …

دعا کا ٹوٹا ہوا حرف سرد آہ میں ہے (پروین شاکر)

  دعا کا ٹوٹا ہوا حرف سرد آہ میں ہے تری جدائی کا منظر ابھی نگاہ میں ہے   ترے بدلنے کے باوصف تجھ کو چاہا ہے یہ اعتراف بھی شامل مرے گناہ میں ہے   عذاب دے گا تو پھر مجھ کو خواب بھی دے گا میں مطمئن ہوں مرا دل تری پناہ میں …

فطرت تبدیل نہیں ہوتی (حکایت سعدی)

عرب چوروں کی ایک جماعت نے پہاڑ کی چوٹی پر قدم جما رکھے تھے اور قافلہ والوں کا رستہ بند کر رکھا تھا ان چوروں کے مکروفریب سے شہروں کی رعایا خوف زدہ تھی ۔  اور بادشاہ کی فوج بھی لاچار و ناچار تھی کیونکہ انہوں نے اپنی جائے پناہ پہاڑ کی دشوار گزارچوٹی پر بنا رکھی …

املاک کی حسرت (حکایت سعدی)

خراسان کے بادشاہوں میں سے ایک نے سلطان محمود سبکتگین  کو  خواب میں اس حالت میں دیکھا کہ اس کا سارا وجود ریزہ ریزہ ہو کر بکھر گیا ہے اور مٹی میں مل گیا ہے مگر اس کی آنکھیں ابھی تک اپنے حلقوں میں گردش کررہی ہیں دیکھ رہی ہیں ۔  تمام خرد مند ،  مفکر، دانشمند اس …

جب کبھی ان کی توجہ میں کمی پائی گئی (ساحر لدھیانوی)

  جب کبھی ان کی توجہ میں کمی پائی گئی ازسرِ نو داستانِ عشق دہرائی گئی   اے غمِ دنیا ! تجھے کیا علم تیرے واسطے کن بہانوں سے طبیعت راہ پر لائی گئی   ہم کریں ترکِ وفا اچھا چلو یوں ہی سہی اور اگر ترکِ وفا سے بھی نہ رسوائی گئی   کیسے کیسے …

اس بچے نے پہلی بار اُٹھایا ہے قلم (پروین شاکر)

اپنے بیٹے کے لیے ایک نظم   اس بچے نے پہلی بار اُٹھایا ہے قلم اور پوچھتا ہے کیا لکھوں مما میں تجھ سے کیا کہوں بیٹے کہ اب سے برسوں پہلے یہ لمحہ جب مری ہستی میں آیا تھا تو میرے باپ نے مجھ کو سکھائے تھے محبت ، نیکی، اور سچائی کے کلمے …

اپنے  سرد  کمرے  میں (پروین شاکر)

صرف ایک لڑکی اپنے  سرد  کمرے  میں میں اُداس  بیٹھی  ہوں نیم وا دریچوں سے نم ہوائیں آتی ہیں میرے جسم کو چھو کر آگ سی لگاتی ہیں تیرا نام لے لے کر مجھ کو گدگداتی ہیں کاش میرے پَر ہوتے میں اُڑ کر چلی آتی کاش میں ہوا ہوتی تجھ کو چُھو کے لوٹ آتی …