Monthly archives: May, 2020

جب رات کی تنہائی دل بن کے دھڑکتی ہے (بشیر بدر)

جب رات کی تنہائی دل بن کے دھڑکتی ہے یادوں کے دریچوں میں چلمن سی سرکتی ہے لوبان میں چنگاری جیسے کوئی رکھ جائے یوں یاد تری شب بھر سینے میں سلگتی ہے یوں پیار نہیں چھپتا پلکوں کے جھکانے سے آنکھوں کے لفافوں میں تحریر  چمکتی ہے خوش رنگ پرندوں کے لوٹ آنے کے …

ترے عشق میں ہائے! ترے عشق میں (گلزار)

ترے عشق میں ترے عشق میں ہائے! ترے عشق میں راکھ سے روکھی، کوئل سے اکلی رات کٹے نہ ہجراں والی ترے عشق میں ہائے! ترے عشق میں تری جستجو کرتے رہے مرتے رہے ترے عشق میں ترے روبرو بیٹھے ہوئے مرتے رہے ترے عشق میں تیرے روبرو تیری جستجو ترے عشق میں ہائے! ترے …

ہے غلط گر گمان میں کچھ ہے (میر درد)

ہے غلط گر گمان میں کچھ ہے تجھ سِوا بھی جہان میں کچھ ہے دل بھی تیرے ہی ڈھنگ سیکھا ہے آن میں کچھ ہے آن میں کچھ ہے لے خبر ، تیغِ یار کہتی ہے باقی اس نیم جان میں کچھ ہے ان دنوں کچھ عجب حال ہے میرا دیکھتا کچھ ہوں دھیان میں …

ہم تجھ سے کس ہوس پہ فلک جستجو کریں (میر درد)

ہم تجھ سے کس ہوس پہ فلک جستجو کریں دل ہی نہیں رہا ہے جو کچھ آرزو کریں تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں سرتا قدم زبان ہیں جوں شمع گو کہ ہم پر یہ کہاں مجال جو کچھ گفتگو کریں ہر چند آئینہ ہوں پر اتنا …

فرصتِ زندگی بہت کم ہے (میر درد)

فرصتِ زندگی بہت کم ہے مغتنم ہے ، یہ دید جو دم ہے دین و دنیا میں تُو ہی ظاہر ہے دونوں عالم کا ایک عالم ہے سلطنت پر نہیں ہے کچھ موقوف جس کے ہاتھ آوے جام سو جم ہے اپنے نزدیک باغ میں تجھ بن جو شجر ہے سو نخلِ ماتم ہے درد …

تجھی کو جو یاں جلوہ فرما نہ دیکھا (میر درد)

تجھی کو جو یاں جلوہ فرما نہ دیکھا برابر ہے دنیا کو دیکھا نہ دیکھا اذیت ، مصیبت ، ملامت ، بلائیں تِرے عشق میں ہم نے کیا کیا نہ دیکھا تغافل نے تیرے یہ کچھ دن دکھائے اِدھر تو نے لیکن نہ دیکھا نہ دیکھا حجابِ رُخِ یار تھے آپ ہی ہم کھلی آنکھ …

برگ بھر بار محبت کا اٹھایا کب تھا (جلیل عالی)

برگ بھر بار محبت کا اٹھایا کب تھا تم نے سینے میں کوئی درد بسایا کب تھا اب جو خود سے بھی جدا ہو کے پھرو ہو بن میں تم نے بستی میں کوئی دوست بنایا کب تھا نقدِ احساس کہ انساں کا بھرم ہوتا ہے ہم نے کھویا ہے کہاں آپ نے پایا کب …

موت کا وقت گزر جائے گا (فرحت احساس)

موت کا وقت گزر جائے گا یہ بھی سیلاب اتر جائے گا آگیا ہے جو کسی سکھ کا خیال مجھ کو چھوئے گا تو مر جائے گا کیا خبر تھی مرا خاموش مکاں اپنی آواز سے ڈر جائے گا آ گیا ہے جو دکھوں کا موسم کچھ نہ کچھ تو کہیں دھر جائے گا جھوٹ …

وہ شخص کہ میں جس سےمحبت نہیں کرتا (قتیل شفائی)

وہ شخص کہ میں جس سےمحبت نہیں کرتا ہنستا ہے مجھے دیکھ کے نفرت نہیں کرتا کس قوم کے دل میں نہیں جذباتِ براہیم کس ملک پہ نمرود حکومت نہیں کرتا بھولا نہیں میں آج بھی آدابِ جوانی میں آج بھی اوروں کو نصیحت نہیں کرتا دیتے ہیں اجالے مِرے سجدوں کی گواہی میں چھپ …

وہ دل ہی کیا ترے ملنے کی جو دعا نہ کرے (قتیل شفائی)

وہ دل ہی کیا ترے ملنے کی جو دعا نہ کرے میں تجھ کو بھول کے زندہ رہوں، خدا نہ کرے رہے گا ساتھ تِرا پیار زندگی بن کر یہ اور بات ہے مِری زندگی وفا نہ کرے یہ ٹھیک ہے نہیں مرتا کوئی جدائی میں خدا کسی کو کسی سے مگر جدا نہ کرے …