Monthly archives: April, 2020

شام سے آنکھ میں نمی سی ہے (گلزار)

شام سے آنکھ میں نمی سی ہے آج پھر آپ کی کمی سی ہے دفن کر دو ہمیں کہ سانس ملے نبض کچھ دیر سے تھمی سی ہے کون پتھرا گیا ہے آنکھوں میں برف پلکوں پہ کیوں جمی سی ہے وقت رہتا نہیں کہیں ٹک کر اس کی عادت بھی آدمی سی ہے کوئی …

مریضِ محبت انہی کا فسانہ (قمر جلالوی)

مریضِ محبت انہی کا فسانہ، سناتا رہا دَم نکلتے نکلتے مگر ذکرِ شامِ الم جب بھی آیا چراغِ سحر بجھ گیا جلتے جلتے انہیں خط میں لکھا تھا دل مُضطرِب ہے جواب ان کا آیا، محبت نہ کرتے تمہیں دل لگانے کو کس نے کہا تھا، بہل جائے گا دل، بہلتے بہلتے مجھے اپنے دل …

ذکر جہلم کا ہے، بات ہے دینے کی (گلزار)

ذکر جہلم کا ہے، بات ہے دینے کی چاند پکھراج کا، رات پشمینے کی کیسے اوڑھے گی ادھڑی ہوئی چاندنی رات کوشش میں ہے چاند کو سینے کی کوئی ایس گرا ہے نظر سے کہ بس ہم نے صورت نہ دیکھی پھر آئینے کی درد میں جاودانی کا احساس تھا ہم نے لاڈوں سے پالی …

جو تو گیا تھا تو تیرا خیال رہ جاتا (جمال احسانی)

جو تو گیا تھا تو تیرا خیال رہ جاتا  ہمارا کوئی تو پرسانِ حال رہ جاتا برا تھا یا وہ بھلا، لمحئہ محبت تھا وہیں پہ یہ سلسئہ ماہ و سال رہ جاتا بچھڑتے وقت گر ڈھلکتا نہ ان آنکھوں سے اس ایک اشک کا کیا کیا ملال رہ جاتا تمام آئینہ خانے کی لاج …

آج بھی شام اداس رہی (محسن نقوی)

آج بھی شام اداس رہی آج بھی شام اداس رہی آج بھی تپتی دھوپ کا سحرا ترے نرم لبوں کے شبنم سائے سے محروم رہا آج بھی پتھر ہجر کا لمحہ صدیوں سے بے خواب رتوں کی آنکھوں کا مفہوم رہا آج بھی اپنے وصل کا تارا راکھ اڑاتی شوخ شفق کی منزل سے معدوم …

وصال رُت کی یہ پہلی دستک ہی سرزنش ہے (نوشی گیلانی)

اداس شام کی ایک نظم وصال رُت کی یہ پہلی دستک ہی سرزنش ہے کہ ہجر موسم نے رستے رستے سفر کا آغاز کر دیا ہے تمہارے ہاتھوں کا لمس جب بھی مری وفا کی ہتھیلیوں پرحنا بنے گا تو سوچ لوں گی رفاقتوں کا سنہرا سورج غروب کے امتحان میں ہے ہمارے باغوں میں …

وہ ہم سفر تھا مگر اس سے ہم نوائی نہ تھی (نصیر ترابی)

وہ ہم سفر تھا مگر اس سے ہم نوائی نہ تھی کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی نہ اپنا رنج نہ اوروں کا دکھ نہ تیرا ملال شبِ فراق کبھی ہم نے یوں گنوائی نہ تھی محبتوں کا سفر اس طرح بھی گزرا تھا شکستہ دل تھے مسافر شکستہ پائی نہ تھی …

کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا ایا (ساحر لدھیانوی)

کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا ایا بات نکلی تو ہر اک بات  پہ رونا آیا ہم تو سمجھے تھے کہ ہم بھول گئے ہیں ان کو کیا ہوا اج کس بات پہ رونا آیا کس لیے جیتے ہیں ہم کس کے لیے جیتے ہیں بارہا ایسے سوالات پہ رونا آیا کون روتا ہے …

اس کے نزدیک غمِ ترکِ وفا کچھ بھی نہیں (اختر شمار)

اس کے نزدیک غمِ ترکِ وفا کچھ بھی نہیں مطمئن ایسا ہے وہ جیسے ہوا کچھ بھی نہیں اب تو ہاتھوں سے لکیریں بھی مٹی جاتی ہیں اس کو کھو کر تو مرے پاس رہا کچھ بھی نہیں چار دن رہ گئے میلے میں مگر اب کہ بھی اس نے آنے کے لیے خط میں …

وفا کا بندہ ہوں الفت کا پاسدار ہوں میں (سائل دہلوی)

وفا کا بندہ ہوں الفت کا پاسدار ہوں میں حریفِ قمری و پروانہ و ہزار ہوں میں جدا جدا نظر آتی ہے جلوہ کی تاثیر قرار ہو گیا موسیٰ کو بے قرار ہوں میں شباب کر دیا میرا تباہ الفت نے خزاں کے ہاتھ کی بوئی ہوئی بہار ہوں میں سما گیا ہے یہ سودا …