Monthly archives: February, 2019

سارے غم بانٹ لیں ہر خوشی بانٹ لیں (مظفر وارثی)

تقسیم سارے غم بانٹ لیں ہر خوشی بانٹ لیں آؤ آپس میں ہم زندگی بانٹ لیں ڈال لیں ریت اگر بانٹ لینے کی ہم دوگنی ہو جائے خوشی نصف رہ جائے غم اشک تقسیم کر لیں ہنسی بانٹ لیں آؤ آپس میں ہم زندگی بانٹ لیں پیاس کا رابطہ بھی سمندر سے ہو کوئی مفلس …

ہم اور ہوا (شہزاد احمد)

گھاٹ گھاٹ کا پانی پینا میری بھی تقدیر رہا ہے تم نے بھی دنیا دیکھی ہے پھر بھی جب ہم ملتے ہیں بچوں جیسی معصومی سے باتیں کرتے ہیں تم کہتی ہو آج سے پہلے تیرے جیسا کوئی نہیں تھا میں کہتا ہوں میں نے تجھ کو ہر چہرے میں تلاش کیا ہے تم کہتی …

اسے خبر ہے (صفدر حسین جعفری)

کسے خبر  کہ املتاس کے درختوں پر سنہری پھول کھلے ہیں بہار آئی ہے تمام شہر تو مصروفِ تجارت ہے کسے خبر کہ املتاس کے درختوں پر بہار آئی ہوئی تھی بہار جانے کو ہے کہ روحِ عصر ہے محصور کارخانوں میں بس ایک نیلی چڑیا پروں کو پھیلائے طوافِ گل میں مگن ٹہنیوں پہ …

یہ بہتر ہے (شفیق احمد)

میں سوچتا ہوں کچھ اس سے کہوں کوئی بات محبت الفت کی کوئی بات سنہرے خوابوں کی کوئی بات کہ جس کی رگ رگ سے بے نام سی خوشبو پھوٹتی ہو پھر سوچتا ہوں کیا حاصل ہے گر اس کو سب کچھ کہہ بھی دیا یہ لفظ اکارت جائیں گے میں سوچتا ہوں اک گیت …

مسلسل بے کلی دل کو رہی ہے (ناصر کاظمی)

مسلسل بے کلی دل کو رہی ہے مگر جینے کی صورت تو رہی ہے میں کیوں پھرتا ہوں مارا مارا یہ بستی چین سے کیوں سو رہی ہے چلے دل سے امیدوں کے مسافر یہ نگری آج خالی ہو رہی ہے نہ سمجھو تم اسے شورِ بہاراں خزاں پتوں میں چھپ کے رو رہی ہے …

نئے کپڑے پہن کر جاؤں کہاں اور (ناصر کاظمی)

نئے کپڑے پہن کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیے وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا میں باہر جاؤں کس کے لیے جس دھوپ کی دل میں ٹھنڈک تھی وہ دھوپ اسی کے ساتھ گئی ان جلتی بلتی گلیوں میں اب خاک اُڑاؤں کس کے لیے وہ شہر میں تھا تو اس …

لب تِرے لعلِ ناب ہیں دونوں (میر تقی میر)

لب تِرے لعلِ ناب ہیں دونوں پر تمامی عذاب ہیں دونوں رونا آنکھوں کا رویئے کب تک پھُوٹنے ہی کے باب ہیں دونوں ہے تکلف نقاب ،  وے رخسار کیا چھپیں آفتاب ہیں دونوں تن کے معمورے میں یہی دل و چشم گھر تھے ، سو خراب ہیں دونوں ایک سب آگ ، ایک سب …

نہیں وسواس جی گنوانے کے (میر تقی میر)

نہیں وسواس جی گنوانے کے ہائے رے ذوق  دِل لگانے کے میرے تغیرِ حال پر مت جا اتفاقات ہیں زمانے کے دمِ آخر ہی کیا نہ آنا تھا اور بھی وقت تھے بہانے کے اس کدورت کو ہم سمجھتے ہیں ڈھب ہیں یہ خاک میں ملانے کے دل و دیں ہوش و صبر سب ہی …

عمر بھر ہم رہے شرابی سے (میر تقی میر)

عمر بھر ہم رہے شرابی سے دلِ پُر خوں کی اک گلابی سے جی ڈھا جائے  ہے سحر سے آہ رات گزرے گی کس خرابی سے کھِلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے اُس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے کام تھے عشق میں بہت پر میر ہم ہی فارغ ہوئے شتابی سے

تا بہ مقدور انتظار کیا (میر تقی میر)

تا بہ مقدور انتظار کیا دل نے اب زور بے قرار کیا دشمنی ہم سے کی زمانے نے کہ جفا کار تجھ سا یار کیا یہ توہم کا کارخانہ ہے یاں وہی ہے جو اعتبار کیا ایک ناوک نے اس کی مژگاں کے طائرِ سدرہ تک شکار کیا صد رگِ جاں کو تاب دے باہم …