Monthly archives: November, 2020

بات میری کبھی سنی ہی نہیں (داغ دہلوی)

بات میری کبھی سنی ہی نہیں جانتے وہ بری بھلی ہی نہیں دل لگی ان کی دل لگی ہی نہیں رنج بھی ہے فقط ہنسی ہی نہیں لطف مے تجھ سے کیا کہوں زاہد ہائے کم بخت تو نے پی ہی نہیں اڑ گئی یوں وفا زمانے سے کبھی گویا کسی میں تھی ہی نہیں …

محبتوں میں کچھ ایسے بھی حال ہوتے ہیں(محسن نقوی)

محبتوں میں کچھ ایسے بھی حال ہوتے ہیں خفا ہوں جن سے، انہی کے خیال ہوتے ہیں مچلتے رہتے ہیں ذہنوں میں وسوسوں کی طرح حسیں لوگ بھی جان کا وبال ہوتے ہیں تیری طرح میں دل کے زخم چھپاؤں کیسے کہ تیرے پاس تو لفظوں کے جال ہوتے ہیں بس ایک تو ہی سبب …

مِری زندگی ہے ظالم تِرے غم سے آشکارا (شکیل بدایونی)

مِری زندگی ہے ظالم تِرے غم سے آشکارا تِرا غم ہے در حقیقت مجھے زندگی سے پیارا وہ اگر برا نہ مانیں تو جہانِ رنگ و بو میں میں سکونِ دل کی خاطر کوئی ڈھونڈ لوں سہارا مجھے تجھ سے خاص نسبت، میں رہینِ موجِ دریا جنہیں زندگی تھی پیارے انہیں مِل گیا کنارہ میں …

کون آئے گا یہاں کوئی نہ آیا ہو گا (کیف بھوپالی)

کون آئے گا یہاں کوئی نہ آیا ہو گا میرا دروازہ ہواؤں نے بجایا ہوگا دل ناداں نہ دھڑک اے دل ناداں نہ دھڑک کوئی خط لے کے پڑوسی کے گھر آیا ہوگا اس گلستاں کی یہی ریت ہے اے شاخ گل تو نے جس پھول کو پالا وہ پرایا ہوگا دل کی قسمت ہی …

کہیں تو گرد اُڑے، یا کہیں غبار دِکھے (گلزار)

کہیں تو گرد اُڑے، یا کہیں غبار دِکھے کہیں سے آتا ہوا کوئی شہسوار دِکھے رَواں ہیں پھر بھی رُکے ہیں وہیں پہ صدیوں سے بڑے اُداس لگے، جب بھی آبشار دِکھے کبھی تو چونک کے دیکھے کوئی ہماری طرف کسی کی آنکھ میں ہم کو بھی انتظار دِکھے خفا تھی شاخ سے شاید، کہ …

وہ عالم ہے کہ منہ پھیرے ہوئے عالم نکلتا ہے (صفی لکھنوی)

وہ عالم ہے کہ منہ پھیرے ہوئے عالم نکلتا ہے شبِ فرقت کے غم جھیلے ہوؤں کا دم نکلتا ہے الٰہی خیر ہو الجھن پہ الجھن بڑھتی جاتی ہے نہ میرا دم نہ ان کے گیسوؤں کا خم نکلتا ہے قیامت ہی نہ ہو جائے جو پردے سے نکل آؤ تمہارے منہ چھپانے میں تو …

داغ دنیا نے دیے زخم زمانے سے ملے (کیف بھوپالی)

داغ دنیا نے دیے زخم زمانے سے ملے ہم کو تحفے یہ تمہیں دوست بنانے سے ملے ہم ترستے ہی ترستے ہی ترستے ہی رہے وہ فلانے سے فلانے سے فلانے سے ملے خود سے مل جاتے تو چاہت کا بھرم رہ جاتا کیا ملے آپ جو لوگوں کے ملانے سے ملے ماں کی آغوش …

لے چلا جان مری روٹھ کے جانا تیرا (داغ دہلوی)

لے چلا جان مری روٹھ کے جانا تیرا ایسے آنے سے تو بہتر تھا نہ آنا تیرا تو جو اے زلف! پریشان رہا کرتی ہے کس کے اجڑے ہوئے دل میں ہے ٹھکانا تیرا آرزو ہی نہ رہی صبح وطن کی مجھ کو شام غربت ہے عجب وقت سہانا تیرا تو خدا تو نہیں اے …

تمہارے شہر کا موسم بڑا سہانا لگے (قیصر الجعفری)

تمہارے شہر کا موسم بڑا سہانا لگے میں اک شام چرا لوں اگر برا نہ لگے تمہارے بس میں اگر ہو تو بھول جاؤ مجھے تمہیں بھلانے میں شاید مجھے زمانہ لگے وہ پھول جو میرے دامن سے ہو گئے منسوب خدا کرے انہیں بازار کی ہوا نہ لگے نہ جانے کیا ہے کسی کی …

اپنے چہرے سے جو ظاہر ہے چھپائیں کیسے (وسیم بریلوی)

اپنے چہرے سے جو ظاہر ہے چھپائیں کیسے تیری مرضی کے مطابق نظر آئیں کیسے گھر سجانے کا تصور تو بہت بعد کا ہے پہلے یہ طے ہو کہ اس گھر کو بچائیں کیسے لاکھ تلواریں بڑھی آتی ہوں گردن کی طرف سر جھکانا نہیں آتا تو جھکائیں کیسے قہقہہ آنکھ کا برتاؤ بدل دیتا …