Category «فیض احمد فیض»

صبح کی آج جو رنگت ہے وہ پہلے تو نہ تھی(فیض احمد فیض)

صبح کی آج جو رنگت ہے وہ پہلے تو نہ تھی کیا خبر آج خراماں سرِ گلزار ہے کون   شام گلنار ہوئی جاتی ہے دیکھو تو سہی یہ جو نکلا ہے لئے مشعلِ رخسار،  ہے کون   رات مہکی ہوئی آئی ہے کہیں سے پوچھو آج بکھرائے ہوئے زلفِ طرح دار ہے کون   …

نہ گنواؤ ناوکِ نیم کش دلِ ریزہ ریزہ گنوادیا (فیض احمد فیض)

نہ گنواؤ ناوکِ نیم کش دلِ ریزہ ریزہ گنوادیا جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو تنِ داغ داغ لٹا دیا   مرے چارہ گر کو نوید ہو صفِ دشمناں کو خبر کرو جو وہ قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج چکا دیا   کرو کج جبیں پہ سرِ کفن مرے قاتلوں کو گماں …

کوئی عاشق کسی محبوبہ سے (فیض احمد فیض)

کوئی عاشق کسی محبوبہ سے   یاد کی راہ گزر جس پہ اسی صورت سے مدتیں بیت گئیں ہیں تمہیں چلتے چلتے ختم ہو جائے جو دو چار قدم اور چلو موڑ پڑتا ہے جہاں دشتِ فراموشی کا جس سے آگے نہ کوئی میں ہوں نہ کوئی تم ہو سانس تھامے ہے نگاہیں کہ نہ …

اک ذرا سوچنے دو (فیض احمد فیض)

سوچنے دو   اک ذرا سوچنے دو اس خیاباں میں جو اس لحظہ بیاباں بھی نہیں کون سی  شاخ پہ پھول آئے تھے سب سے پہلے کون بے رنگ ہوئی رنج و تعب سے پہلے اور اب سے پہلے کس گھڑی کون سے موسم میں یہاں خون کا قحط پڑا گل کی شہ رگ پہ …

ساری دیوار سیہ ہو گئی تا حلقئہ دام (فیض احمد فیض)

ملاقات مری   ساری دیوار سیہ ہوگئی تا حلقئہ دام راستے بجھ گئے رخصت ہوئے رہ گیر تمام اپنی تنہائی سے گویا ہوئی پھر رات مری ہو نہ ہو آج پھر آئی ہے ملاقات مری اک پتھیلی پہ حنا ، ایک ہتھیلی پہ لہو اک نظر زہر لئے اک نظر میں دارو دیر سے منزلِ …

جب سے بے نور ہوئی ہیں شمعیں (فیض احمد فیض)

  بلیک آؤٹ جب سے بے نور ہوئی ہیں شمعیں خاک میں ڈھونڈتا پھرتا ہوں نہ جانے کس جا کھو گئیں ہیں مری دونوں آنکھیں تم جو واقف ہو بتاؤ کوئی پہچان مری اس طرح ہے کہ ہر اک رگ میں اتر آیا ہے موج در موج کسی زہر کا قاتل دریا تیرا ارمان، تری …

سبھی کچھ تمہارا دیا ہوا ہے،  سبھی راحتیں سبھی کلفتیں (فیض احمد فیض)

سبھی کچھ تمہارا دیا ہوا ہے،  سبھی راحتیں سبھی کلفتیں کبھی صحبتیں کبھی فرقتیں ، کبھی دوریاں کبھی قربتیں یہ سخن جو ہم نے رقم کیے ، یہ ہیں سب ورق تری یاد کے کوئی لمحہ صبحِ وصال کا  کئی شامِ ہجر کی مدتیں جو تمہاری مان لیں ناصحا ، تُو رہے گا دامنِ دل …

آج بازار میں پابجولاں چلو (فیض احمد فیض)

  چشم، نم ، جانِ شوریدہ کافی نہیں تہمتِ عشقِ پوشیدہ کافی نہیں آج بازار میں پا بجولاں چلو دست افشاں چلو، مست و رقصاں چلو خاک بر سر چلو ، خوں بداماں چلو راہ تکتا ہے سب شہرِ جاناں چلو   حاکمِ شہر بی ، مجمعِ عام بھی تیرِ الزام بھی ، سنگِ دشنام …