Category «فیض احمد فیض»

اشک آباد میں ایک شام (فیض احمد فیض)

  جب سورج نے جاتے جاتے اشک آباد کے نیلے افق سے اپنے سنہری جام میں ڈھالی سرخیِ اولِ شام اور یہ جام تمہارے سامنے رکھ کر  تم سے کیا کلام کہا پرنام اٹھو اور اپنے تن کی سیج سے اٹھ کر اک شیریں پیغام ثبت کرو اس شام کسی کے نام کنارِ جام شاید …

یہ جفائے غم کا چارہ ،  وہ نجاتِ دل کا عالم (فیض احمد فیض)

یہ جفائے غم کا چارہ ،  وہ نجاتِ دل کا عالم ترا حسن دستِ عیسیٰ ،  تری یاد رُوئے مریم دل و جاں فدائے راہے کبھی آ کے دیکھ ہمدم سرِ کوئے دل فگاراں شبِ آرزو کا عالم تِری دید سے سوا ہے ترے شوق میں بہاراں یہ چمن جہاں گِری ہے ترے گیسوؤں کی …

ناگہاں آج مرے تارِ نظر سے کٹ کر (فیض احمد فیض

ختم ہوئی بارشِ سنگ ناگہاں آج مرے تارِ نظر سے کٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوئے آفاق پہ خورشید و قمر اب کسی سمت اندھیرا نہ اجالا ہو گا بجُھ گئی دل کی طرح راہِ وفا میرے بعد دوستو! قافلئہ درد کا اب کیا ہو گا اب کوئی اور کرے پرورشِ گلشنِ غم دوستو ختم ہوئی …

دور آفاق پہ لہرائی کوئی نور کی لہر (فیض احمد فیض)

قیدِ تنہائی دور آفاق پہ لہرائی کوئی نور کی لہر خواب ہی خواب میں بیدار ہوا درد کا شہر خواب ہی خواب میں بیتاب نظر ہونے لگی عدم آبادِ جدائی میں سحر ہونے لگی کاسئہ دل میں بھری اپنی صبوحی میں نے گھول کر تلخئی دیروز میں امروز کا زہر  دور آفاق پہ لہرائی کوئی …

رہ گزر، سائے، شجر، منزل ودر، حلقئہ بام (فیض احمد فیض)

منظر رہ گزر، سائے، شجر، منزل ودر، حلقئہ بام بام پر سینئہ مہتام کھلا، آہستہ جس طرح کھولے کوئی بندِ قبا، آہستہ حلقئہ بام تلے ، سایوں کا ٹھہرا ہوا نیل نیل کی جھیل جھیل میں چپکے سے تیرا،  کسی پتے کا حباب ایک پل تیرا، چلا ، پھوٹ گیا، آہستہ بہت اہستہ، بہت ہلکا، …

قطعات (فیض احمد فیض)

نہ دید ہے نہ سخن اب نہ حرف ہے نہ پیام کوئی بھی حیلۃ تسکیں نہیں اور آس بہت ہے امید یار نظر کا مزاج درد کا رنگ تم آج کچھ بھی نہ پوچھو کہ دل اداس بہت ہے       میخانوں کی رونق ہیں کبھی خانقہوں کی اپنا ہوس والوں نے جو رسم …

دلِ من مسافرِ من (فیض احمد فیض)

    مِرے دل مِرے مسافر ہوا پھر سے حکم صادر کہ وطن بدر ہوں ہم تم دیں گلی گلی صدائیں کریں رخ نگر نگر کا کہ سراغ کوئی پائیں کسی یارِ نامہ بر کا  ہراک  اجنبی سے پوچھیں جو پتہ تھا اپنے گھر کا سرِ کوئے ناشنایاں ہمیں دن سے رات کرنا کبھی اِس …

بہت ملا نہ ملا زندگی سے غم کیا ہے (فیض احمد فیض)

بہت ملا نہ ملا زندگی سے غم کیا ہے متاعِ درد بہم ہے تو بیش و کم کیا ہے ہم ایک عمر سے واقف ہیں اب نہ سمجھاؤ کہ لطف کیا ہے مرے مہرباں ستم کیا ہے کرے نہ جگ میں الاؤ تو شعر کس مصرف کرے نہ شہر میں جل تھل تو چشمِ نم …

دربار میں اب سطوتِ شاہی کی علامت (فیض احمد فیض)

دربار میں اب سطوتِ شاہی کی علامت درباں کا عصا ہے کہ مصنف کا قلم ہے آوارہ ہے پھر کوہِ ندا پر جو بشارت تمہیدِ مسرت ہے کہ طولِ شبِ غم ہے جس دھجی کو گلیوں میں لئے پھرتے ہیں طفلاں یہ میرا گریباں ہے کہ لشکر کا علم ہے جس نور سے ہے شہر کی …

اس وقت تو یوں لگتا ہے (فیض احمد فیض)

  اس وقت تو یوں لگتا ہےاب کچھ بھی نہیں ہے مہتاب نہ سورج نہ اندھیرا نہ سویرا   آنکھوں کے دریچوں پہ کسی حسن کی چلمن اور دل کی پناہوں میں کسی درد کا ڈیرا   ممکن ہے کوئی وہم تھا ممکن ہے سنا ہو گلیوں میں کسی چاپ کا اک آخری پھیرا   …