Category «نوشی گیلانی»

مجھ کو رسوا سرِ محفل تو نہ کروایا کرے (نوشی گیلانی)

مجھ کو رسوا سرِ محفل تو نہ کروایا کرے کاش آنسو مری آنکھ میں ہی رہ جایا کرے اے ہوا میں نے تو بس اس کا پتہ پوچھا تھا اب کہانی تو نہ ہر بات کی بن جایا کرے بس بہت دیکھ لیے خواب سہانے دن کے اب وہ باتوں کی رفاقت سے نہ بہلایا …

ہر ذرۃ امید سے خوشبو نکل آئے (نوشی گیلانی)

ہر ذرۃ امید سے خوشبو نکل آئے تنہائی کے صحرا سے اگر تو نکل آئے کیسا لگے اس بار اگر موسمِ گل میں تتلی کا بدن اوڑھ کے جگنو نکل آئے پھر دن تری یاد کی منڈیروں پہ گزرا پھر شام ہوئی آنکھ سے آنسو نکل آئے بے چین کئے رہتا ہے دھڑکا یہی جی …

کون روک سکتا ہے (نوشی گیلانی)

لاکھ ضبطِ خواہش کے بے شمار دعوے ہوں اس کو بھول جانے کے بے پنہ ارادے ہوں اور اس محبت کو ترک کر کے جینے کا فیصلہ سنانے کو کتنے لفظ سوچے ہوں دل کو اس کی آہٹ پر برملا دھڑکنے سے کون روک سکتا ہے پھر وفا کے صحرا میں اس کے نرم لہجے …

گریزِ شب سے سحر سے کلام رکھتے تھے (نوشی گیلانی)

گریزِ شب سے سحر سے کلام رکھتے تھے کبھی وہ دن تھے کہ زلفوں میں شام رکھتے تھے   تمہارے ہاتھ لگے ہیں تو جو کرو سو کرو وگرنہ تم سے تو ہم سو غلام رکھتے تھے   ہمیں بھی گھیر لیا گھر کے زعم نے تو کھلا کچھ اور لوگ بھی اس میں قیام …

ہوا کو لکھنا جو آگیا ہے (نوشی گیلانی)

ہوا کو لکھنا جو آگیا ہے اب اس کی مرضی کہ وہ خزاں کو بہار لکھ دے بہار کو انتظار لکھ دے سفر کی خواہشوں کو واہموں کے عذاب سے ہم کنار لکھ دے ہوا کو لکھنا جو آگیا ہے ہوا کی مرضی کہ وصل موسم میں ہجر کو حصہ دار لکھ دے محبتوں میں …