Category «گلزار»

میں کائنات میں سیاروں میں بھٹکتا تھا (گلزار)

میں کائنات میں سیاروں میں بھٹکتا تھا دھوئیں میں دھول میں الجھی ہوئی کرن کی طرح میں اس زمیں پہ بھٹکتا رہا ہوں صدیوں تک گرا ہے وقت سے کٹ کر جو لمحہ اس کی طرح وطن ملا تو گلی کے لیے بھٹکتا رہا گلی میں گھر کا نشاں ڈھونڈتا رہا برسوں تمہاری روح میں …

میرے کپڑوں میں ٹنگا ہے (گلزار)

میرے کپڑوں میں ٹنگا ہے تیرا خوش رنگ لباس گھر پہ دھوتا ہوں ہر بار اسے اور سکھا کے پھر سے اپنے ہاتھوں سے اسے استری کرتا ہوں مگر استری کرنے سے جاتی نہیں شکنیں اس کی اور دھونے سے گلے شکوؤں کے چکتے نہیں مٹتے زندگی کس قدر آساں ہوتی رشتے گر ہوتے لباس …

گیٹ کے اندر جاتے ہیں (گلزار)

ماضی۔۔۔۔ مستقبل گیٹ کے اندر جاتے ہیں، ایک حوضِ خاص ہے سینکڑوں قصوں کی کائی سے بھرا ہوا ہے چاروں جانب چھ سو سال پرانے سائے سوکھ رہے ہیں گزرے وقتوں کی تمثیلوں پر گائیڈ ورق لگا کر ماضی بیچ رہا ہے!! ماضی کے اس گیٹ کے باہر ہاتھوں کی ریکھائیں رکھ کے پٹری پر …

کوئی خاموش زخم لگتی ہے (گلزار)

کوئی خاموش زخم لگتی ہے زندگی ایک نظم لگتی ہے بزم یاراں میں رہتا ہوں تنہا اور تنہائی بزم لگتی ہے اپنے سائے پہ پاؤں رکھتا ہوں چھاؤں چھالوں کو نرم لگتی ہے چاند کی نبض دیکھنا اٹھ کر رات کی سانس گرم لگتی ہے یہ روایت کہ درد مہکے رہیں دل کی دیرینہ رسم …

کوئی اٹکا ہوا ہے پل شاید (گلزار)

کوئی اٹکا ہوا ہے پل شاید وقت میں پڑ گیا ہے بل شاید لب پہ آئی مری غزل شاید وہ اکیلے ہیں آج کل شاید دل اگر ہے تو درد بھی ہوگا اس کا کوئی نہیں ہے حل شاید جانتے ہیں ثواب رحم و کرم ان سے ہوتا نہیں عمل شاید آ رہی ہے جو …

کندھے جھک جاتے ہیں جب (گلزار)

کندھے جھک جاتے ہیں جب بوجھ سے اس لمبے سفر کے ہانپ جاتا ہوں میں جب چڑھتے ہوئے تیز چڑھانیں سانسیں رہ جاتی ہیں جب سینے میں اک گچھا سا ہو کر اور لگتا ہے کہ دم ٹوٹ ہی جائے گا یہیں پر ایک ننھی سی میری نظم سامنے آ کر مجھ سے کہتی ہے …

قدیم راتوں کی ٹوٹی قبروں کے میلے کتبے (گلزار)

قدیم راتوں کی ٹوٹی قبروں کے میلے کتبے دنوں کی ٹوٹی ہوئی صلیبیں گری پڑی ہیں شفق کی ٹھنڈی چتاؤں سے راکھ اڑ رہی ہے جگہ جگہ گرز وقت کے چور ہو گئے ہیں جگہ جگہ ڈھیر ہو گئی ہیں عظیم صدیاں میں کھنڈروں کی زمیں پہ کب سے بھٹک رہا ہوں یہیں مقدس، ہتھیلیوں …

سیلی ھَوا چُھو گئی (گلزار)

سیلی ھَوا چُھو گئی سیلا بدن چِھل گیا  گیلی ندی کے پرے گیلا سا چاند کِھل گیا۔ تُم سی ملی جو زندگی ھم نے ابھی بوئی نہیں تیرے سِوا کوئی نہ تھا  تیرے سِوا کوئی نہیں جانے کہاں کیسے شہر لے کے چلا یہ دل مجھے تیرے بغیر دن نہ جلا تیرے بغیر شب نہ …

رکے رکے سے قدم رک کے بار بار چلے (گلزار)

رکے رکے سے قدم رک کے بار بار چلے قرار دے کے ترے در سے بے قرار چلے اٹھائے پھرتے تھے احسان جسم کا جاں پر چلے جہاں سے تو یہ پیرہن اتار چلے نہ جانے کون سی مٹی وطن کی مٹی تھی نظر میں دھول جگر میں لیے غبار چلے سحر نہ آئی کئی …

رات چپ چاپ دبے پاؤں چلے جاتی ہے (گلزار)

رات چپ چاپ دبے پاؤں چلے جاتی ہے رات خاموش ہے روتی نہیں ہنستی بھی نہیں کانچ کا نیلا سا گنبد ہے اڑا جاتا ہے خالی خالی کوئی بجرا سا بہا جاتا ہے چاند کی کرنوں میں وہ روز سا ریشم بھی نہیں چاند کی چکنی ڈلی ہے کہ گھلی جاتی ہے اور سناٹوں کی …