Category «گلزار»

رات بھر سرد ہوا چلتی رہی (گلزار)

رات بھر سرد ہوا چلتی رہی رات بھر ہم نے الاؤ تاپا میں نے ماضی سے کئی خشک سی شاخیں کاٹیں تم نے بھی گزرے ہوئے لمحوں کے پتے توڑے میں نے جیبوں سے نکالیں سبھی سوکھی نظمیں تم نے بھی ہاتھوں سے مرجھائے ہوئے خط کھولے اپنی ان آنکھوں سے میں نے کئی مانجے …

جھ سے ناراض نہیں زندگی، حیران ہوں میں (گلزار)

تجھ سے ناراض نہیں زندگی، حیران ہوں میں تیرے معصوم سوالوں سے پریشاں ہوں میں جینے کے لیے سوچا ہی نہیں، درد سنبھالنے ہوں گے مسکرائیں تو مسکرانے کے قرض اتارنے ہوں گے مسکراؤں کبھی تو لگتا ہے جیسے ہونٹوں پہ قرض رکھا ہے تجھ سے ناراض نہیں زندگی، حیران ہوں میں تیرے معصوم سوالوں …

پیڑ کے پتوں میں ہلچل ہے، خبردار سے ہیں (گلزار)

پیڑ کے پتوں میں ہلچل ہے، خبردار سے ہیں شام سے تیز ہوا چلنے کے آثار سے ہیں ناخدا دیکھ رہا ہے کہ میں گرداب میں ہوں اور جو پُل پہ کھڑے لوگ ہیں، اخبار سے ہیں چڑھتے سیلاب میں ساحل نے تو منہ ڈھانپ لیا لوگ پانی کا کفن لینے کو تیار سے ہیں …

کانچ کے پیچھے چاند بھی تھا (گلزار)

کانچ کے پیچھے چاند بھی تھا اور کانچ کے اوپر کائی بھی تینوں تھے ہم وہ بھی تھے اور میں بھی تھا تنہائی بھی یادوں کی بوچھاروں سے جب پلکیں بھیگنے لگتی ہیں سوندھی سوندھی لگتی ہے تب ماضی کی رسوائی بھی دو دو شکلیں دکھتی ہیں اس بہکے سے آئینے میں میرے ساتھ چلا …

بڑی اداس ہے وادی (گلزار)

بڑی اداس ہے وادی گلا دبایا ہوا ہے کسی نےانگلی سے یہ سانس لیتی رہے، پر یہ سانس لے نہ سکے درخت اگتے ہیں کچھ سوچ سوچ کر جیسے جو سر اٹھائے گا پہلے وہی قلم ہوگا جھکا کے گردنیں آتے ہیں ابر ، نادم ہیں کہ دھوئے جاتے نہیں خون کے نشاں ان سے! …

ایسا خاموش تو منظر نہ فنا کا ہوتا (گلزار)

ایسا خاموش تو منظر نہ فنا کا ہوتا میری تصویر بھی گرتی تو چھناکا ہوتا یوں بھی اک بار تو ہوتا کہ سمندر بہتا کوئی احساس تو دریا کی انا کا ہوتا سانس موسم کی بھی کچھ دیر کو چلنے لگتی کوئی جھونکا تری پلکوں کی ہوا کا ہوتا کانچ کے پار ترے ہاتھ نظر …

مجھ کو بھی ترکیب سکھا کوئی یار جولاہے (گلزار)

  مجھ کو بھی ترکیب سکھا کوئی یار جولاہے اکثر تجھ کو دیکھا ہے کہ تانا بنتے جب کوئی تاگا ٹوٹ گیا یا ختم ہوا پھر سے باندھ کے اور سرا کوئی جوڑ کے اس میں آگے بننے لگتے ہو تیرے اس تانے میں لیکن اک بھی گانٹھ گرہ بنتر کی دیکھ نہیں سکتا ہے …

وقت کی آنکھ پہ پٹی باندھ کے کھیل رہے تھے آنکھ مچولی (گلزار)

وقت کی آنکھ پہ پٹی باندھ کے کھیل رہے تھے آنکھ مچولی رات اور دن اور چاند اور میں جانے کیسے کائنات میں اٹکا پاؤں دور گرا جا کر میں جیسے! روشنی سے دھکا کھا کے پرچھائیں زمیں پر گرتی ہے دھیا چھونے سے پہلے ہی وقت نے چور کہا اور آنکھیں کھول کے مجھ …

نظم الجھی ہوئی ہے سینے میں (گلزار)

  نظم الجھی ہوئی ہے سینے میں مصرعے اٹکے ہوئے ہیں ہونٹوں پر لفظ کاغذ پہ بیٹھتے ہی نہیں اڑتے پھرتے ہیں تتلیوں کی طرح کب سے بیٹھا ہوا ہوں میں جانم سادہ کاغذ پہ لکھ کے نام ترا بس ترا نام ہی مکمل ہے اس سے بہتر بھی نظم کیا ہو گی!