Category «میرزا محمد رفیع سودا»

گر کیجئے انصاف تو کی زار وفا میں (میرزا محمد رفیع سودا)

گر کیجئے انصاف تو کی زار وفا میں  خط آتے ہی سب چل گئے اب آپ ہیں یا میں تم جن کی ثنا کرتے ہو کیا بات ہے ان کی لیکن ٹک ادھر دیکھیو اے یار بھلا میں رکھتا ہے کچھ ایسی وہ برہمن بچہ رفتار بت ہو گیا دھج دیکھ کے جس کی بہ …

کس سے بیاں کیجیے حال دلِ تباہ کا (میرزا محمد رفیع سودا)

کس سے بیاں کیجیے حال دلِ تباہ کا سمجھے وہی اسے جو ہو زخمی تری نگاہ کا مجھ کو تری طلب ہے یار، تجھ کو چاہ غیر کی اپنی نظر میں یاں نہیں کوئی طور نباہ کا دین ودل ، قرار و صبر عشق میں تیرے کھو چکے جیتے جو اب کے ہم بچے نام …

ٹوٹے تری نگاہ سے اگر دل حباب کا (میرزا محمد رفیع سودا)

ٹوٹے  تری نگاہ سے اگر دل حباب کا پانی بھی پھر پیئیں تو مزہ ہے شراب کا دوزخ مجھے قبول ہے اے منکر ونکیر لیکن نہیں دماغ سوال و جواب کا زاہد سبھی ہے نعمتِ حق جو ہے کل و شَرب لیکن عجب مزہ ہے شراب و کباب کا قطرہ گرا تھا جو کہ مرے …

ترے خط آنے سے دل کو مرے آرام کیا ہو گا (میرزا محمد رفیع سودا)

ترے خط آنے سے دل کو مرے آرام کیا ہو گا خدا جانے کہ اس آغاز کا انجام کیا ہوگا نہ دو ترجیح اے خوباں کسی کو مجھ پہ غربت میں زیادہ مجھ سے کوئی بے کس و ناکام کیا ہو گا مگر لائق نہیں اس دور میں ہم بادہ خواری کے جو دیوے گا …

گدا دستِ اہلِ کرم دیکھتے ہیں (میرزا محمد رفیع سودا)

گدا دستِ اہلِ کرم دیکھتے ہیں ہم اپنا ہی دَم اور قدم دیکھتے ہیں نہ دیکھا جو کچھ جام میں اپنے جم نے سو اِک قطرۃ مے میں ہم دیکھتے ہیں غرض کفر سے کچھ نہ دین سے ہے مطلب تماشائے دیر و حرم دیکھتے ہیں حبابِ لبِ جو ہیں اے باغباں ہم چمن کو …

گُل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی (میرزا محمد رفیع سودا)

گُل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی اے خانہ بر اندازِ چمن کچھ تو اِدھر بھی   کیا ضد ہے خدا جانے مجھ ساتھ وگرنہ کافی ہے تسلی کو مِری ایک نظر بھی   کس ہستئی موہوم پہ نازاں ہے تو اے یار کچھ اپنے شب و و روز کی  ہے  تجھ کو …

آدم کا جسم جب کہ عناصر سے مل بنا (میرزا رفیع سودا)

آدم کا جسم جب کہ عناصر سے مل بنا کچھ آگ بچ رہی تھی سو عاشق کا دل بنا سرگرمِ نالہ ان دنوں میں بھی ہوں عندلیب مت آشیانہ چمن میں مرے متصِل بنا جب تیشہ کوہکن نے لیا ہاتھ تب یہ عشق بولا کہ اپنی چھاتی پہ دھرنے کو سِل بنا جس تیرگی سے …