آؤ کہ جشنِ مرگِ محبت منائیں ہم ! (اختر الایمان)

آخری ملاقات    آؤ جشنِ مرگِ محبت منائیں ہم !   آتی نہیں کہیں سے دلِ زندہ کی صدا   سونے پڑے ہیں کوچہ و بازار عشق کے   ہے شمعِ انجمن کا نیا حسن جاں گداز   شاید نہیں رہے وہ پتنگوں کے ولولے   تازہ نہ رہ سکیں گی روایاتِ دشت و در …

کوئی آواز دیتا ہے (منصورہ احمد)

کوئی آواز دیتا ہے   کوئی آواز دیتا ہے  حریر و پرنیاں جیسی صداؤں میں کوئی مجھ کو بلاتا ہے کچھ ایسا لمس ہے آواز کا جیسے اچانک فاختہ کے ڈھیر سے کومل پروں پر ہاتھ پڑ جائے اور ان میں ڈوبتا جائے بہت ہی دور سے آتی صدا ہے میں لفظوں کے معانی کی …

جن پر میرا دل دھڑکا تھا ، وہ سب باتیں دہراتے ہو (فہمیدہ ریاض)

وہ لڑکی   جن پر میرا دل دھڑکا تھا ، وہ سب باتیں دہراتے ہو وہ جانے کیسی لڑکی ہے تم اب جس کے گھر جاتے ہو   مجھ سے کہتے تھے بِن کاجل اچھی لگتی ہیں مِری آنکھیں تم اب جس کے گھر جاتے ہو کیسی ہوں گی اس کی آنکھیں   تنہائی میں …

ایک ہے ایسی لڑکی جس سے تم نے ہنس کر بات نہ کی (فہمیدہ ریاض)

اس کا دل تو اچھا تھا ایک ہے ایسی لڑکی جس سے تم نے ہنس کر بات نہ کی کبھی نہ دیکھا ، چمکے اس کی آنکھوں میں کیسے موتی کبھی نہ سوچا، تم سے ایسی باتیں وہ کیوں کہتی ہے کبھی نہ سمجھا ، ملتے ہو تو گھبرائی کیوں رہتی ہے کیوں اس کے …

تمہارے لہجے میں جو گرمی و حلاوت ہے (اختر الایمان)

بنتِ لمحات   تمہارے لہجے میں جو گرمی و حلاوت ہے اسے بھلا سا کوئی نام دو وفا کی جگہ غنیمِ نور کا حملہ کہو اندھیروں پر دیارِ درد میں آمد کہو مسیحا کی رواں دواں ہوئے خوشبوؤں کے قافلے ہر سو خلائے صبح میں گونجی سحر کی شہنائی یہ اِک کہرا سا،  یہ دھند …

شام ہوتی ہے سحر ہوتی ہے یہ وقتِ رواں (اختر الایمان)

بے تعلقی   شام ہوتی ہے سحر ہوتی ہے یہ وقتِ رواں جو کبھی سنگِ گراں بن کے میرے سر پہ گرا راہ میں آیا کبھی میری ہمالہ بن کر جو کبھی عقدہ بنا ایسا کہ حل ہی نہ ہوا اشک بن کر میری آنکھوں سے کبھی ٹپکا ہے جو کبھی خونِ جگر بن کے …

میں جب طفلِ مکتب تھا، ہر بات، ہر فلسفہ جانتا تھا )اختر الایمان)

آگہی   میں جب طفلِ مکتب تھا، ہر بات، ہر فلسفہ جانتا تھا کھڑے ہو کے منبر پہ پہروں سلاطینِ پارین و حاضر حکایاتِ شیریں و تلخ ان کی، ان کے درخشاں جرائم  جو صفحاتِ تاریخ پر کارنامے ہیں، ان کے اوامر نواہی حکیموں کے اقوال، دانا خطیبوں کے خطبے جنہیں مستمندوں نے باقی رکھا …

ہاتھ نہ آئی دنیا بھی اور عشق میں بھی گمنام رہے (شبنم شکیل)

ہاتھ نہ آئی دنیا بھی اور عشق میں بھی گمنام رہے سوچ کے اب شرمندہ ہیں  کیوں دونوں میں ناکام رہے   اب تک اس کے دم سے اپنی خوش فہمی تو قائم ہے اچھا ہے جو بات میں اس کی تھوڑا سا ابہام رہے   ہم نے بھی کچھ نام کیا تھا ہم کو …

سوکھے ہونٹ سلگتی آنکھیں سرسوں جیسا رنگ (شبنم شکیل)

سوکھے ہونٹ سُلگتی آنکھیں سرسوں جیسا رنگ برسوں بعد وہ دیکھ کے مجھ کو رہ جائے گا دنگ   ماضی کا وہ لمحہ مجھ کو آج بھی خون رلائے اکھڑی اکھڑی باتیں اس کی غیرون جیسے ڈھنگ   تارہ بن کے دور افق پر کانپے لرزے ڈولے کچھ دور سے اڑنے والی دیکھو ایک پتنگ   …