جب سے بے نور ہوئی ہیں شمعیں (فیض احمد فیض)

  بلیک آؤٹ جب سے بے نور ہوئی ہیں شمعیں خاک میں ڈھونڈتا پھرتا ہوں نہ جانے کس جا کھو گئیں ہیں مری دونوں آنکھیں تم جو واقف ہو بتاؤ کوئی پہچان مری اس طرح ہے کہ ہر اک رگ میں اتر آیا ہے موج در موج کسی زہر کا قاتل دریا تیرا ارمان، تری …

اُس سمت مجھ کو یار نے جانے نہیں دیا (منیر نیازی)

اُس سمت مجھ کو یار نے جانے نہیں دیا اک اور شہرِ یار میں آنے نہیں دیا   کچھ وقت چاہتے تھے کہ سوچیں ترے لیے تو نے وہ وقت ہم کو زمانے نہیں دیا   منزل ہے اس مہک کی کہاں کس چمن میں ہے اس کا پتہ سفر میں ہوا نے نہیں دیا …

ملن کی رات (منیر نیازی)

ملن کی رات   اے دوشیزہ! مت گھبرا   اب سورج ڈوبنے والا ہے   سورج ڈوب کے ایک اندھیری کالی رات کو لائے گا   لاکھوں انہونی باتوں کا میلا دھیان میں لائے گا   پھر بادل گھر کر آئیں گے   گرج گرج کر چمک چمک کر تیرا جی دہلائیں گے   برکھا …

یہ معجزہ بھی محبت کبھی دکھائے مجھے (قتیل شفائی)

یہ معجزہ بھی محبت کبھی دکھائے مجھے کہ سنگ تجھ پہ گرے اور زخم آئے مجھے   وہی تو ہے سب سے زیادہ نکتہ چیں میرا جو مسکرا کے ہمیشہ گلے لگائے مجھے   زمانہ درد کے صحرا تک آج لے آیا گزار کر تِری زلفوں کے سائے سائے مجھے   وہ میرا دوست ہے …

راستے یاد نہیں راہنما یاد نہیں (قتیل شفائی)

راستے یاد نہیں راہنما یاد نہیں اب مجھے کچھ تری گلیوں کےسوا یاد نہیں   پھر خیالوں میں وہ بیتے ہوئے ساون آئے لیکن اب تجھ کو پپیہےکی صدا یاد نہیں   ایک وعدہ تھا جو شیشے کی طرح ٹوٹ گیا حادثہ کب یہ ہواکیسے ہوا یاد نہیں ہم دیا کرتے تھے اغیار کو طعنہ …

حقیقت کا اگر افسانہ بن جائے تو کیا کیجے (قتیل شفائی)

حقیقت کا اگر افسانہ بن جائے تو کیا کیجئے گلے مل کر بھی وہ بیگانہ بن جائے تو کیا کیجئے   ہمیں سو بار ترکِ مے کشی منظور ہے لیکن نظر اس کی اگر میخانہ بن جائے تو کیا کیجئے   نظر آتا ہے سجدے میں جواکثر شیخ صاحب کو وہ جلوہ جلوۃ جانانہ بن …

اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں بسا لے مجھ کو (قتیل شفائی)

اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں سجالے مجھ کو میں ہوں تیرا تو نصیب  اپنا بنا لے مجھ کو   مَیں جو کانٹا ہوں تو چل مجھ سے بچا کر دامن مَیں ہوں گر پھول تو جوڑے میں سجالے مجھ کو   ترکِ الفت کی قسم بھی کوئی ہوتی ہے قسم تو کبھی یاد تو کر …

نگاہِ ناز نے پردے اٹھائے ہیں کیا کیا (فراق گورکھ پوری)

نگاہِ ناز نے پردے اٹھائے ہیں کیا کیا حجاب اہلِ محبت کو آئے ہیں کیا کیا   جہاں میں تھی بس اک افواہ تیرے جلووں کی چراغِ دیر و حرم جھلملائے ہیں کیا کیا   دو چار برقِ تجلی سے رہنے والوں نے فریب نرم نگاہی کے کھائے ہیں کیا کیا   بقدرِ ذوقِ نظر …