سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں (فراق گورکھ پوری)

سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں لیکن اس ترکِ محبت کا بھروسہ بھی نہیں   یہ بھی سچ ہے کہ محبت پہ نہیں میں مجبور یہ بھی سچ  کہ  ہے تِرا حسن کچھ ایسا بھی نہیں   دل کی گنتی نہ یگانوں میں نہ بیگانوں میں لیکن اس جلوہ گہِ ناز …

آج بھی قافلئہ عشق رواں ہے کہ جو تھا (فراق گورکھ پوری)

آج بھی قافلئہ عشق رواں ہے کہ جو تھا وہی میل اور وہی سنگِ نشاں ہے  کہ جو تھا   آج بھی کام محبت کے بہت نازک ہیں دل وہی کارگہِ شیشہ گراں ہے کہ جو تھا   قرب ہی کم ہے نہ دوری ہی زیادہ لیکن آج وہ ربط کا احساس کہاں ہے کہ …

تمہارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا (داغ دہلوی)

      تمہارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا   وہ قتل کر کے مجھے ہر کسی سے پوچھتے ہیں یہ کام کس نے کیا ہے یہ کام کس کا تھا؟   وفا کریں گے نبھاہیں گے بات مانیں گے تمہیں بھی …

پھرے راہ سے وہ یہاں آتے آتے (داغ دہلوی)

پھرے راہ سے وہ یہاں آتے آتے اجل رہ گئی تو کہاں آتے آتے مجھے یاد کرنے سے یہ مدعا تھا نکل جائے جاں ہچکیاں آتے آتے نہ جانا کہ دنیا سے جاتا ہے کوئی بہت دیر کی مہرباں آتے آتے نتیجہ نہ نکلا تھکے سب پیامی وہاں جاتے جاتے یہاں آتے آتے چلے آتے …

تجھے کھو کر بھی تجھے پاؤں (احمد ندیم قاسمی)

تجھے کھو کر بھی تجھے پاؤں جہاں تک دیکھوں حسنِ یزداں سے تجھے حسنِ بتاں تک دیکھوں   تُو نے یوں دیکھا ہے جیسے کبھی دیکھا ہی نہ تھا مِیں تو دل میں تِرے قدموں کے نشاں تک دیکھوں   صرف اس شوق میں پوچھی ہیں ہزاروں باتیں میں تِرا حُسنِ بیاں تِرے  ترے حُسنِ …

شام کو صبحِ چمن یاد آئی (احمد ندیم قاسمی)

شام کو صبحِ چمن یاد آئی کس کی خوشبوئے بدن یاد آئی   جب خیالوں میں کوئی موڑ آیا تیرے گیسو کی شکن یاد آئی   یاد آئے ترے پیکر کے خطوط اپنی کوتاہیِ فن یاد آئی   چاند جب دور افق پر ڈوبا تیرے لہجے کی تھکن یاد آئی   دن شعاعوں سے الجھتے …

بن ہو، ابر ہو، تیز ہوا ہو (احمد ندیم قاسمی)

بن ہو،  ابر ہو،  تیز ہوا ہو تیرے حسن کا دیا جلا ہو   پَو بھی پھُٹھی طوفاں بھی اٹھا اب کوئی کیا جانے کیا ہو   آج کی کلیاں کب چٹکیں گی شاید مستقبل کو پتہ ہو   چاند بھی ساکن ، وقت بھی ساکن شاید تو کچھ سوچ رہا ہو   پت جھڑ …

بگاڑ ہو کہ بناؤ ، عجیب تیرے سبھاؤ (احمد ندیم قاسمی)

بگاڑ ہو کہ بناؤ ، عجیب تیرے سبھاؤ نگاہوں میں ہیں بلاوے تو ابروؤں میں تناؤ گجر بجا ہے سہانا ، مگر کرو نہ بہانہ جھکا قمر نہ دکھاؤ ، بجھا چراغ جلاؤ اگر گھنا ہو اندھیرا ، اگر ہو دور سویرا تو یہ اصول ہے میرا کہ دل کے دیپ جلاؤ اجڑ رہے ہیں …

کل چودھویں کی رات تھی (ابن انشا)

کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا تِرا کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرہ تِرا   ہم بھی وہیں موجود تھے ہم سے بھی سب پوچھا کیے ہم ہنس دیے ہم چپ رہے منظور تھا پردہ تِرا   اس شہر میں کِس سے مِلیں   ہم سے تو چھوٹیں محفلیں …

انشا جی اٹھو اب کوچ کرو ( ابن انشا)

انشا جی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کو لگانا کیا وحشی کو سکوں سے کیا مطلب جوگی کا نگر میں ٹھاکانا کیا   اس دل کے دریدہ دامن میں دیکھو تو سہی سوچو تو سہی جس جھولی میں سو چھید ہوئے اس جھولی کا پھیلانا کیا   شب بیتی چاند بھی ڈوب …