آہ پھر نغمہ بنا چاہتی ہے (ناصر کاظمی)

آہ پھر نغمہ بنا چاہتی ہے خامُشی طرزِ ادا چاہتی ہے آج پھر وسعتِ صحرائے جنوں پرسشِ ابلہ پا چاہتی ہے دیکھ کیفیتِ طوفانِ بہار بوئے گل رنگ ہوا چاہتی ہے دل میں اب خارِ تمنا بھی نہیں زندگی برگ و نوا چاہتی ہے اک ہمیں بارِ چمن ہیں ورنہ غنچے غنچے کو صبا چاہتی …

آپ جن کے قریب ہوتے ہیں (نوح ناروی)

آپ جن کے قریب ہوتے ہیں وہ بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں جب طبیعت کسی پر آتی ہے موت کے دن قریب ہوتے ہیں مجھ سے ملنا پھر آپ کا ملنا آپ کس کو نصیب ہوتے ہیں ظلم سہ کر بھی جو اف نہیں کرتے ان کے دل بھی عجیب ہوتے ہیں عشق میں اور …

ہوا نادم میں حالِ دل سنا کر (نظام رامپوری)

ہوا نادم میں حالِ دل سنا کر جو اس نے مجھ کو دیکھا مسکرا کر نہ پوچھو میرے آنے کا سبب تم میں خود حیراں ہوں اس محفل میں ا کر مِری سی باتیں واں کرتے ہیں اغیار مِری دو چار باتیں سن سنا کر تم ایسے کس لیے مغرور ہوتے غضب ہم نے کیا …

نامہ بر سچ کہو وہ کہتے تھے یاں آنے کو (نظام رامپوری)

نامہ بر سچ کہو وہ کہتے تھے یاں آنے کو یا یہ کہتا ہے یوں ہی تو مِرے بہلانے کو ہے یہی شکر کہ اتنا تو لحاظ ان کو ہوا ہوئے دشمن سے خفا گو مِرے دکھلانے کو اس رکاوٹ کا سبب وصل میں پھر کیا ہے مگر آگے دشمن کے رہے بات قسم کھانے …

مجھ سے ملنا تو کسی ڈھب انہیں منظور نہیں (نظام رامپوری)

مجھ سے ملنا تو کسی ڈھب انہیں منظور نہیں ہے یہی شکر کہ یہ بات بھی مشہور نہیں گاہے گاہے بھی یہ ملنا ہے غنیمت اس کا حُسن پر اپنے  وہ ایسا بھی مغرور نہیں مجھ سے ہاں آپ کو الفت ہے سمجھتا ہوں میں کچھ میں نادان نہیں ، عقل سے معذور نہیں کبھی …

خیر یوں ہی سہی تسکیں ہو کہیں تھوڑی سی (نظام رامپوری)

خیر یوں ہی سہی تسکیں ہو کہیں تھوڑی سی “ہاں” تو کہتے ہو مگر ساتھ “نہیں” تھوڑی سی حالِ دل سن کے مِرا بر سرِ رحمت تو ہیں کچھ ابھی باقی ہے مگر چینِ جبیں تھوڑی سی ہوئی جاتی ہے سحر ایسا بھی گھبرانا کیا رات اگر ہے بھی تو اے ماہ جبیں! تھوڑی سی …

آپ کہتے ہیں مجھے ” شکوۃ بے جا ہے تمہیں” (نظام رامپوری)

آپ کہتے ہیں مجھے ” شکوۃ بے جا ہے تمہیں” میں جو کہتا ہوں وہی غیر بھی کہتا ہے تمہیں ان جفاؤں کی ندامت بھی تمہیں کو ہوگی مہرباں بھی تو کبھی بندے پہ ہونا ہے تمہیں مجھے امیدِ وفا تم سے ، تمہیں دشمن سے یہ اگر خبط ہے تو مجھ سے زیادا ہے …

غیر سے کہتے ہیں وہ میرے ستانے کے لیے (نظام رامپوری)

غیر سے کہتے ہیں وہ میرے ستانے کے لیے ڈھونڈ لیں گے ہم بھی کوئی دل لگانے کے لیے کچھ خبر بھی ہے تمہیں اپنے مریضِ عشق کی یاد ہے کہتا تھا کوئی زہر کھانے کے لیے کس کی باتوں سے تمہارا بزم میں رکتا ہے دل یہ اشارے ہیں فقط میرے اٹھانے کے لیے …

اس بھرے شہر میں کوئی ایسا نہیں (اخترالایمان)

 تبدیلی اس بھرے شہر میں کوئی ایسا نہیں جو مجھ راہ چلتے کو پہچان لے اور اواز دے ” اوئے سر پھرے” دونوں ایک دوسرے سے لپٹ کر وہیں گرد و پیش اور ماحول کو بھول کر گالیاں دیں، ہنسیں، ہاتھا پائی کریں .پاس کے پیڑ کی چھاؤں میں بیٹھ کر گھنٹوں ایک دوسرے کی …

شام ہوتی ہے سحر ہوتی ہے یہ وقتِ رواں (اخترالایمان)

بے تعلقی شام ہوتی ہے سحر ہوتی ہے یہ وقتِ رواں جو کبھی سنگِ گراں بن کے میرے سر پہ گرا راہ میں آیا کبھی میری ہمالہ بن کر جو کبھی عقدہ بنا ایسا کہ حل ہی نہ ہوا اشک بن کر میری آنکھوں سے کبھی ٹپکا ہے جو کبھی خونِ جگر بن کے مژہ …