حکایت سعدی

 

مصلحت آمیز جھوٹ

۔ مین نےایک بادشاہ کے متعلق سنا کہ اس نے ایک قیدی کے قتل کا حکم دیا۔  بے چارے قیدی نے اس مایوسی کی حالت میں با دشاہ کو گالیاں دینا اور برا بھلا کہنا شروع کردیا کیونکہ بزرگوں کا کہنا ہے کہ جب کوئی شخص جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے تو جو کچھ اس کے دل میں ہوتا ہے کہ ڈالتا ہے

ترجمہ اشعار

مجبوری کی حالت میں جب کہ بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں رہتا انسان کا ہاتھ تلوار کی تیز دھار والے پھل ہی کو پکڑ لیتا ہے

جب انسان اپنی زندگی سے مایوس ہو جاتا ہے تو اس کی زبان کھل جاتی ہے جس طرح ایک مجبور بلی اپنا پیچھا کرنے والے کتے پر حملہ کر دیتی ہے 

بادشاہ نے پوچھا یہ قیدی کیا کہتا ہے؟ وزیروں میں سے ایک نیک دل وزیر نے عرض کیا! حضور یہ قیدی کہ رہا ہے کہ غصے کو پی جانے والے اور لوگوں کو معاف کر دینے والے بہت اچھے ہوتے ہیں۔ بادشاہ کو اس پر رحم آگیا اور اس نے اسے معاف کر دیا۔ ایک دوسرے وزیر نے جو پہلے وزیر کےبرعکس طبیعت کا تھا کہا: ہم جیسے لوگوں کے لئے مناسب نہیں ہےکہ بادشاہ کے حضور سچ کے علاوہ کوئی اور بات کہیں اس قیدی نے تو بادشاہ کو گالی دی اور برا بھلا کہا ۔ بادشاہ نے یہ بات سن کر غصۓ سے منہ پھیر لیا اور کہا: اس وزیر کا جھوٹ مجھے تیرے اس سچ سے زیادہ پسند آیا ہے۔ کیونکہ اس کا جھوٹ بھلائی پر مبنی تھا اور تیرے سچ کی بنیاد برائی پر ہے  اور عقلمندوں نے کہا ہے کہ مصلحت یا بھلائی کے لئے بولا جانے والا جھوٹ فتنہ پیدا کرنے والے سچ سے بہتر ہے۔

ترجمہ شعر

جو شخص ایسا ہے کہ بادشاہ اس کے کہے پر عمل کرےتو بڑے افسوس کی بات ہوگی اگر وہ نیکی کے سوا کچھ اور کہے

ایران کے قدیم بادشاہ فریدوں کے دروازے پر لکھا تھا

اے بھائی یہ دنیا ہمیشہ کسی کے پاس نہیں رہتی اس لئے تو اپنا دل اس دنیا کے پیدا کرنے والے سے لگا اور بس!

تو دنیا کے مال و دولت پر بھروسا نہ کر اور اس کے سہارے نہ رہ کیونکہ اس نے تجھ جیسے بہت سے لوگوں کو پالا  اور پھر مار ڈالا

جب روح انسانی جسم سے کوچ کرنے کا ارادہ کرتی ہے تو کیا تخت پر مرنا اور کیا زمین پر (دونوں برابر ہیں)

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *