مشتاق احمد یوسفی

تین چار سال بعد دو تین دن کے لئے سردی کا موسم آ جائے تو اہل کراچی اس کا الزام کوئٹ ونڈ پر دھرتے ہیں اور کوئٹہ کی سردی کی شدت کو کسی سیم تن کے سترنما  سویٹر سے ناپتے ہیں کراچی کی سردی  بیوہ کی جوانی کی طرح ہوتی ہے۔  ہر ایک کی نظر پڑتی ہے اور وہیں ٹھہر بلکہ ٹھٹھر کر رہ جاتی ہے۔  ادھر کوئٹہ میں جب دستانے ، کمبل ، مفلر  اور سمور کے انبار میں سے صرف چمکتی ہوئی آنکھیں دیکھ کر یہ فیصلہ کرنا ناممکن ہوجائے کہ ان کے جنوب میں مونچھ ہے یا پنکھڑی  اک گلاب کی سی ہے تو کوئٹہ والے اس گھپلے کا ذمہ دار قندھاری ہوا کو ٹھہراتے ہیں اور جب قندھار میں سائبیریا کی زمہریری ہواؤں سے درختوں پر اناروں کی بجائے برف کے لڈو لٹکتے ہیں۔ گوالے گائے کے تھنوں سےاآئس کریم دوہتے ہیں ،  اور سردی  سے  کانپتے  انسان  کے  دل  میں خود  کو  واصل  جہنم کرنے کی شدید خواہش ہوتی ہے، تو اہلیان  قندھار کمبل سے چمٹ  کر ہمسایہ ملک  کی  طرف  غضب  ناک  نظروں  سے  دیکھتے  ہیں  ۔  چھوٹے ملکوں کے موسم بھی تو اپنے نہیں  ہوتے،   ہوائیں  اور طوفاں بھی دوسرے  ملکوں سے آتے ہیں زلزلوں کا مرکز بھی سرحد پار ہوتا ہے۔ 

یہ جنوری 1950 کی ایک ایسی ہی صبح کا ذکر ہے ۔ موسمی کیفیت ہم نے قدرے تفصیل و تنقیص  کے ساتھ اس لئے بیان کی کہ یہ کراچی میں ہماری پہلی صبح تھی ۔ گوارا حد تک گرم ہونے کے علاوہ یہ ایک تاریخ ساز صبح بھی تھی ۔ زمستان کی اس صبح بینکاری کے پیشے سے ہمارے طویل "فلرٹیشن" کا آغاز ہوا اور صبح اس وقت نہیں ہوتی جب سورج نکلتا ہے ۔ صبح اس وقت ہوتی ہے جب آدمی جاگ اٹھے۔ کسی نے ایک دن فرانس کے شہرۃ آفاق ایب پروست سے پوچھا کہ دنیا کی عسکری تاریخ میں کس واقعہ نے آپ کو سب سے زیادہ متاثر کیا تو اس نے بلا تامل جواب دیا فوج میں بھرتی۔

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *