مشتاق احمد یوسفی

 

تم یہ پیشہ کیوں اختیار کرنا چاہتے  ہو؟ کوئی معقول وجہ؟ ذہن پر بتہرا زور دیا ۔  وہ اگر معقول کی پخ نہ لگاتا تو ہم ایک ہزار وجوہات گنواسکتے تھےاور اگر اس نے ہماری سچ بولنے کی عادت کو اس شدت سے نہ سراہا ہوتا تو ہم یہ جھوٹ بول کر پیچھا چھڑالیتے کہ حساب کتاب سے ہمیں پیدائشی لگائو ہے ۔ لیکن یہ امر واقعہ ہے کہ بزرگ ہمارے حساب کے نمبر دیکھ کر مشتعل ہو جاتے اور ہر سوال پر صفر کو صحبتِ بد کا ثمر سمجھتے ۔ ( حاشا و کلا ! مرحوم بزرگوں کی خطا کی گرفت کرنا ہمارا کام نہیں ، فرشتوں کا فرض ہے ۔ لیکن صحبت بد کی وضاحت اور ریکارڈ درست رکھنے کی خاطر خدا کو حاضرو ناظر جان کر عرض کرتے ہیں کہ جتنی گالیاں بھی ہمیں یاد تھیں وہ سب ہم نے اپنے بزرگوں اور ماسٹروں ہی سے سیکھی تھیں) ۔ان دنوں ہمیں اس کا  بڑا ارمان تھا کہ ہمارے سر پر  سینگ ہوتے تو بزرگ  ہمیں کم از کم گدھا تو نہ سمجھتے ۔   مرزا کے دودھیالی بزرگ تو ان کی پیٹھ پر باکسنگ کی مشق بھی کرتے تھے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *