قابلِ قدر عقل یا قد(حکایت سعدی)

میں بے ایک شہزادے کے متعلق سنا کہ پستہ قد اور بدصورت تھا اور اس کے دوسرے بھائی بلند قامت اور خوبصورت تھے ۔ ایک بار باپ (بادشاہ) اسے نفرت اور حقارت سے دیکھ رہا تھا ۔ بیٹا (شہزادہ) اپنی دانائی اور  بصیرت سے ساری بات سمجھ گیا اور کہنے لگا : اے باپ پستہ قد عقلمند اچھا ہے یا دراز قد بیوقوف ؟ کیوں کہ ؛ جو چیز قد میں چھوٹی ہوتی ہے قیمت میں بڑی ہوتی ہے ۔ دیکھ لیجئے بکری حلال ہے مگر ہاتھی مردار (حرام) ہے ۔

ترجمہ اشعار

1: کو طور دنیا کے پہاڑوں میں سب سے چھوٹا ہے لیکن وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک  قد ر و منزلت میں سب سے بڑا ہے ۔

2: کیا تو نے وہ بات سنی ہے کہ ایک بار ایک دبلے پتلے عقلمند نے ایک موٹے تازے بے وقوف سے کہا

عربی گھوڑا اگرچہ کمزور ہو مگر اس حالت میں بھی وہ گدھوں کے اصطبل سے بہتر ہے

باپ (بادشاہ) ہنس پڑا اور سلطنت کے دوسرے عہدیداروں کو بھی لڑکے (شہزادے) کی یہ بات پسند آئی مگر اس کے بھائی حسد کی آگ میں جلنے لگے

ترجمہ قطعہ

جب تک کوئی شخص بولتا نہیں اس کی خوبیاں خامیاں چھپی رہتی ہیں ۔ ہر جنگل کو خاموش نہیں سمجھنا چاہیے ہو سکتا ہے اس میں کوئی چیتا سو رہا ہو ۔

کہتے ہیں کہ اسی زمانے میں اس بادشاہ کے ملک پرایک سخت دشمن حملہ آور ہوا ۔ جب دونوں طرف سے فوجیں آمنے سامنے ہوئیں تو سب سے پہلے جو شخص میدانِ جنگ میں آیا، یہی لڑکا تھا اور وہ کہ رہا تھا ۔

1: میں وہ نہیں ہوں کہ لڑائی کے دن تو میری پیٹھ دیکھے گا بلکہ میں تو وہ ہوں کہ تو میرے سر کو خاک اور خون میں لتھڑا ہوا دیکھے گا

2: وہ شخص جو کہ لڑائی کے دن ڈٹ کر جنگ کرتا ہے اپنے خون سے کھیلتا ہے اور وہ شخص جو کہ میدان جنگ سے بھاگ نکلتا ہے اپنے لشکر کے خون سے کھیلتا ہے ۔

اس نے یہ کہا اور دشمن کی فوج پر ٹوٹ پڑا اور اس کے چند بہادروں کو مار گرایا ۔ جب باپ(بادشاہ) کے سامنے آیا تو جھک کر آداب بجا لایا اور کہنے لگا

ترجمہ اشعار

1:اے باپ تجھے میری شخصیت حقیر نظر آتی تھی۔ جب تک جنگ کی سختی نہ دیکھی تھی تب تک میرے ہنر کو نہ سمجھا تھا۔

2:لڑائی کے دن پتلی کمر والا گھوڑا کام آتا ہے نہ کہ پلا ہوا موٹا تازہ بیل

کہتے ہیں کہ دشمن کی فوج بہت زیادہ تھی اور یہ لوگ تھوڑے تھے ۔ فوج کے دستے نے بھاگنے کا ارداہ کیا تو لڑکے نے نعرہ مارا اور کہا : اے جوانمردو ہمت سے کام لو تاکہ تمہیں عورتوں کا لباس نہ پہننا پڑے (شرمندگی نہ اٹھانی پڑے) ۔ اس کے کہنے پر سواروں کا حوصلہ بڑھ گیا اور انہوں نے ایک دم دشمن پر حملہ کر دیا ۔ میں نے سنا ہے کہ انہوں نے اسی روز فتح پالی ۔ بادشاہ نے اس کے سر اور آنکھوں کو چوما اور اپنے سینے سے لگایا ، اور ہر روز اس کی طرف زیادہ توجہ دینے لگا یہاں تک کہ اسے اپنا ولی عہد مقرر کردیا ۔ اس پر اس کے بھائی اس سے حسد کرنے لگے اور اس کے کھانے میں زہر ملادیا ۔ اتفاق سے اس کی بہن کھڑکی سے سارا ماجرا دیکھ رہی تھی ۔ اس نے اسے خبردار کرنے کے لئے کھڑکی کا پٹ کھٹکھٹایا ۔ لڑکا اس کا اشارہ سمجھ گیا اور اس نے کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا اور کہا یہ ناممکن ہے کہ ہنر مند مر جائیں اور بےوقوف ان کی جگہ لیں۔ کوئی شخص الو کے سائے تلے آنا پسند نہیں کرتا خوا ہما کا وجود اس دنیا سے مٹ جائے ۔

باپ کو اس واقعہ سے آگاہ کیا گیا تو اس نے بھائیوں کو اپنے حضور طلب کیا اور انہیں مناسب سزا دی ۔ پھر اس نے ہر ایک کے لئے سلطنت کے مختلف اطراف میں حصہ مقرر کر دیا تا کہ فتنہ دب جائے اور جھگڑا ختم ہو جائے کیونکہ دانا کہتے ہیں کہ دس درویش تو ایک گڈری میں سو سکتے ہین لیکن دو بادشاہ ایک سلطنت میں نہیں سماسکتے ۔

1: اللہ کانیک بندہ اگر آدھی روٹی خود کھاتا ہے تو بقیہ آدھی روٹی درویشوں کو عطا کر دیتا ہے لیکن بادشاہ اگر سات ملک بھی فتح کرلے تو اس پر قناعت نہیں کرتا اور دوسرے ملکوں کو فتح کرنے کی فکر میں لگارہتا ہے ۔

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *