پہلا ایشیائی( مشتاق احمد یوسفی)

اگر مبالغہ اور جھوٹ،  بولنا قابلِ دست اندازی پولیس جرم ہوتے تو ان کے ہاتھوں میں مستقلاً  ہتھکڑی پڑی ہوتی ۔ اور ہم نقلِ مجرمانہ میں ساری زندگی حوالات کے جنگلے کے پیچھے مُنہ پر رومال ڈالے گزارتے ۔ تیسرے چوتھے محفل جمتی ۔ وہی ہمہمے وہی ہاؤ ہو ۔ ایک دن ترنگ میں آئے تو کہنے لگے کہ میں پہلا ایشیائی تھا جس نے 1944ء میں "رودبارِ انگلستان" کراس کرنے کی جسارت کی ۔ ورنہ اس زمانے میں تو کالوں کو سوئمنگ پول میں پیر بھگونے کی اجازت نہیں تھی ۔ جس وقت انھوں نے کسرتی بدن پر گریس لگا کے انگلش چینل میں چھلانگ لگائی تو  .سینکڑوں فرنگی" خُمریاں" انہیں سپردِ آب کرنے آئی تھیں ۔ اور آئی تھیں بیاہیوں سے زیادہ کنواریاں ۔ایک ڈچز تو گلدستہ بھی لائی تھی  اور پھونک مار مار کر  خوشبو کا رخ   کو طرف کر رہی تھی ۔ "اس لئے کہ میں پہلا ایشیائی تھا ۔۔۔" وہ ڈوور کے ساحل پر  پھولدار لنگوٹ باندھے دیر تک اپنے دامنِ صبر کو فرنگی زلیخاؤں سے کھنچواتے، پھڑواتے رہے ۔ اس دن سردی سے سارا سمندر جم کر نیلا تھوتھا ہو گیا تھا۔ موج جہاں تک اٹھی تھی وہیں کے وہیں منجمد ہو کر رہ گئی ۔ ایک موج کے بلور میں لالچی بگلا مچھلی کی دم چونچ میں دبائے صاف نظر آرہا تھا ۔ جیسے ہی انھوں نے یا علی! کہ کر چھلانگ لگائی ، برف کی چادر میں ان کی پوری آؤٹ لائن تَرش گئی ، جس میں ان کے ڈنٹر اور رانوں کی مچھلیوں کے ابھار صاف نظر آتے تھے  ۔ خُمریاں حیرت سے گھور رہی تھیں ۔ اس لئے کہ میں پہلا ایشیائی تھا ۔۔۔۔

وہ پھولدار لنگوٹ باندھے سرگرمِ تجلی تھے کہ ہماری ہنسی نکل گئی ۔ انھوں نے خود کو سنبھالا ۔ آخر کو گھاک تھے ۔ کہنے لگے ، بات ختم ہونے سے پہلے ہی ، ہی ہی ہی ہی !ٹھی ٹھی کرنا کیا معنی؟ میں کہ یہ رہا تھا کہ میں پہلا ایشیائی تھا جو انگلش چینل میں چھلانگ لگاتے ہی بے ہوش ہو گیا ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *