اس بچے نے پہلی بار اُٹھایا ہے قلم (پروین شاکر)

اپنے بیٹے کے لیے ایک نظم

 

اس بچے نے پہلی بار اُٹھایا ہے قلم

اور پوچھتا ہے

کیا لکھوں مما

میں تجھ سے کیا کہوں بیٹے

کہ اب سے برسوں پہلے

یہ لمحہ جب مری ہستی میں آیا تھا

تو میرے باپ نے مجھ کو سکھائے تھے

محبت ، نیکی، اور سچائی کے کلمے

مرے توشے میں ان لفظوں کی روٹی رکھ کے وہ سمجھا تھا

میرا راستہ کٹ جائے گا

آگے سفر آسان ہو جائے گا شاید!

محبت مجھ سے دنیا نے وصولی

قرض کی مانند

نیکی سود کی صورت میں

حاصل کی

مری سچائی کے سکے

ہوئے رد اس طرح سے

کہ میں فوراً سنبھلنے کی نہ گر تدبیر کرتی

تو سر پر چھت نہ رہتی

تن پہ پیراہن نہ بچتا

میں اپنے گھر میں رہ کر

عمر بھر جزیہ ادا کرتی رہی ہوں!

زمانہ

میرے خدشوں سے سوا عیار تھا

اور زندگی

میری توقع سے زیادہ بے مروت تھی

تعلق کے گھنے جنگل میں

 بچھو سرسراتے تھے

مگر ہم اس کو سرشاری میں

فصلِ گل کی سرگوشی سمجھتے تھے

پتہ ہی کچھ نہ چلتا تھا

کہ خوابوں کی چھپر کھٹ پر

لباسِ ریشمیں

کس وقت بن کر کینچلی اترا

مخاطب کے روپہلے دانت

کب لمبے ہوئے

اور کان

کب پیچھے مڑے

اور پاؤں

کب غائب ہوئے یکدم!

میں اس کذب و ریا

اس بے لحاظی سے بھری دنیا میں رہ کر

محبت اور نیکی اور سچائی کا ورثہ

تجھ کو کیسے منتقل کردوں

مجھے کیا دے دیا اس نے!

مگر میں ماں ہوں

اور اک ماں اگر مایوس ہو جائے

تو دنیا ختم ہوجائے

سو میرے خوش گماں بچے!

 تو اپنی لوحِ آئندہ پہ

سارے خوبصورت لفظ لکھنا

سدا سچ بولنا

احسان کرنا

پیار بھی کرنا

مگر آنکھیں کھلی رکھنا!

 

 

 

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *