فطرت تبدیل نہیں ہوتی (حکایت سعدی)

عرب چوروں کی ایک جماعت نے پہاڑ کی چوٹی پر قدم جما رکھے تھے اور قافلہ والوں کا رستہ بند کر رکھا تھا ان چوروں کے مکروفریب سے شہروں کی رعایا خوف زدہ تھی ۔  اور بادشاہ کی فوج بھی لاچار و ناچار تھی کیونکہ انہوں نے اپنی جائے پناہ پہاڑ کی دشوار گزارچوٹی پر بنا رکھی تھی ۔ اس علاقے کے سمجھدار آدمی ان چوروں کے نقصانات کے قلع قمع کے لئے آپس میں مشورہ کر رہے تھے کہ اگر یہ گروہ اسی طرح کچھ دیر کے لیے قائم رہا تو پھر ان کا مقابلہ کرنا مشکل ہوجائے گا 

اشعار کا ترجمہ 
جس درخت نے ابھی جڑ پکڑی ہو ایک آدمی کی طاقت سے اسے جڑ سے اکھاڑا جا سکتا ہے ۔ اور اگر اسےاسی طرح چھوڑ دیا جائے تو پھر اسے چرخی  کی مدد سے بھی جڑ سے  نہیں اکھاڑا جا سکے گا 
چشمے کا منہ آغاز میں ایک سلائی سے بند کیا جا سکتا ہے لیکن جب وہ بھر جائے تو پھر ہاتھی پر سوار ہو کر بھی اس سے  نہیں گذرا جا سکتا 

اس بات پر اتفاق ہوا کہ ایک شخص کو انہیں تلاش کرنے کے لئے مقرر کیا جائے اور وہ موقع کے انتظار میں رہے حتیٰ کہ ایک دفعہ چور کسی قوم کو لوٹنے کی غرض سے گئے اور ان کی جائے پناہ خالی تھی چند تجربہ کار اور لڑاکا لوگوں کو بھیجا جو پہاڑ کی گھٹی میں چھپ گئے ۔ رات کو  چور جب سفر کرکے اور لوٹ مار کا مال لیے ہوئے واپس آئے انہوں نے اسلحہ بدن سے کھول دیا اور لوٹا ہوا سامان رکھ دیا تو سب سے پہلے جس دشمن نے ان پر حملہ کیا وہ ان کی نیند تھی یہاں تک کہ رات کا ایک پہر ختم ہوا 
بہادر اور دلیر آدمی گھات سے باہر آگئے ان تمام کے ہاتھ کندھوں پر باندھ دیے اور صبح صبح سویرے ان کو بادشاہ کے روبرو قیدیوں کی حیثیت سے پیش کیا بادشاہ نے سب کو قتل کرنے کا حکم دیا اتفاق سے ان میں سے ایک جوان بھی تھا اٹھتی جوانی کآ میوہ پک رہا تھا ۔  اس کے رخساروں کے باغ کا سبزہ ابھی ابھی اگا تھا ۔  وزیروں میں سے ایک وزیر نے بادشاہ کے تخت کو بوسہ دیا اور سفارش کے لئے چہرہ زمین  پر رکھ کر کہا ۔ اس نوجوان نے ابھی زندگی کے باغ کا میوہ نہیں کھایا اور جوانی کی نوخیزی سے  فائدہ نہیں اٹھایا حضورآپ کے اکرم اور اخلاق سے امید ہے کہ آپ اس نوجوان کو خون کو معاف کر کے مجھ پر احسان فرمائیں گے یہ بات سن کر بادشاہ نے منہ پھیر لیا اور اس  کی بلند رائے کو  یہ بات پسند نہ تھی 

 

شعر
۔ جس کی بنیاد بری ہو وہ نیکی کا اثر قبول نہیں کرتا نااہل کو تربیت دینا گنبد پر اخروٹ رکھنے کے مترادف ہے

 

ان کو ختم کر دینے ہی میں بھلائی ہے ۔ ان کے تمام قبیلون کو بھی جڑ سے اکھاڑ دینا ہی بہتر ہے ۔ آگ بجھا دینا اور انگارہ چھوڑ دینا یا سانپ کو مار ڈالنا اور سانپ کے بچے کو چھوڑ دینا عقلمندوں کا کام نہیں ۔ 

                                           

وزیر نے بادشاہ کی بات سنی اور چاروناچار پسندیدگی کا اظہار بھی کیا بلکہ بادشاہ کی عمدہ رائے کی تعریف بھی کی  تربیت پاتا اور عرض کی کہ خدا آپ کی حکومت کو دوام بخشے آپ نے بالکل درست فرمایا ہے ۔ اگر بروں کی صحبت میں تربیت پاتا تو انہی کا اثر حاصل کر لیتا اور ان میں سے ایک ہو جاتا لیکن بندۃ ناچیز کو امید ہے کہ یہ ابھی بچہ  ہے   اور لوگوں کے ظلم اور بغاوت کے اطوار سے ابھی واقف نہیں ۔ اگر یہ نیکون کی صحبت میں تربیت پائے گا تو یہ نیک ہوجائے گا ۔ حدیث میں ہے کہ تمام بچے دینِ فطرت اسلام پر پیدا ہوتے ہیں اور ان کے مان باپ انہیں  یہودی ، عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں ۔ 

اشعار کا ترجمہ

1: صحبت بد کی وجہ سے حضرت لوط کی بیوی شان پیغبری کھو بیٹھی ۔

2: اصحاب کہف کا کتا انسان کا درجہ پا گیا کیونکہ وہ نیک لوگوں کے ہمراہ رہا تھا ۔ 

اس کی عرض کی کچھ اور درباری بھی تائید کرنے لگے ۔ حتیٰ کہ بادشاہ نے اس لڑکے کے قتل کا ارادہ ترک کر دیا  اور کہا میں اس کی جان معاف کرتا ہوں اگرچہ مجھے اس میں مصلحت نظر نہیں آتی ۔

اشعار کا ترجمہ

1: کیا تو جانتا ہے کہ زال نے رستم سے کیا کہا تھا ۔ دشمن کو حقیر اور کمزور نہیں سمجھنا چاہیے ۔

2: میں نے بہت دفعہ دیکھا ہے کہ چھوٹے سے چشمے کا پانی جب زیادہ ہو گیا تو پھر اونٹ اور سامان کو بہا لے گیا ۔

قصہ مختصر لڑکے کو نہایت لاڈ پیار سے پالا گیا اور اس کی تعلیم و تربیت کے لئے کئی استاد مقرر کئے گئے ۔ یہاں تک کہ نہایت عمدہ طریقے سے بات کرنا ، بات کا جواب دینا اور بادشاہوں کی خدمت میں حاضر ہونے کے آداب سیکھ گیا اور سب لوگ اسے چاہنے لگے ۔ ایک مرتبہ وزیر اس کی عادات کے بارے میں بادشاہ کی خدمت میں عرض کر رہا تھا کہ خرد مندوں کی تربیت نے لڑکے پر بڑا اثر کیا ہے اور پرانی جہالت کا اس کی فطرت سے دور کا بھی تعلق نہیں ۔ بادشاہ مسکریا اور کہنے لگا ۔ 

شعر

بھیڑیئے کا بچہ بھیڑیا ہی ہوتا ہے خواہ آدمیوں کے ساتھ رہ کر بڑا ہوا ہو ۔

اس بات کو دو سال ہوگئے ، محل کے اوباش آدمیوں کا ایک گروہ اس کے ساتھ مل گیا ۔ اور اس سے دوستی کا دم بھرنے لگے ۔ یہاں تک کہ موقع ملتے ہی وزیر اور اس کے دو بیٹوں کو ہلاک کر ڈالا اور بہت سا سامان ساتھ لے گیا ۔ اور چوروں کے غار میں اپنے باپ کی جگہ جا بیٹھا اور باغی ہو گیا ۔ بادشاہ نے حیرت سے انگلی دانتوں میں دبا کر کہا 

اشعار کا ترجمہ

اچھی تلوار برے لوہے سے کیسے بن سکتی ہے ۔ اے عقلمند نااہل تربیت سے عقلمند نہیں بن سکتا ۔

بارش جس کی لطافت سے کوئی بھی انکاری نہیں اس کے اثر سے باغ میں گلِ لالہ اور شور زمین میں گھاس پھونس اگتی ہے ۔

شور زمین سنبل نہیں اگا سکتی لہذا تو اس میں بیج اور محنت ضائع نہ کر ۔ بروں کے ساتھ بھلائی کرنا ایسے ہی ہے جیسے نیکوں سے برائی کرنا ۔ 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *