انداز ہو بہو تِری اوازِ پا کا تھا (احمد ندیم قاسمی)

انداز ہو بہو تِری اوازِ پا کا تھا

دیکھا نکل کے گھر سے تو جھونکا ہوا کا تھا

اس رشتئہ لطیف کے اسرار کیا کھُلیں

تو سامنے تھا اور تصور خدا کا تھا

چھپ چھپ کے روؤں اور سرِ انجمن ہنسوں

مجھ کو یہ مشورہ مِرے درد آشنا کا تھا

ٹوٹا تو کتنے آآئینہ خانوں پہ زد پڑی

اٹکا ہوا جو پتھر گلے میں صدا کا تھا

حیران ہوں کہ وار سے کیسے بچا ندۤیم

وہ شخص تو غریب و غیور انتہا کا تھا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *