ہمارے گھر میں (انیس ناگی)

بریف کیس میں

ہمارے گھر میں

نہ پھول کوئی نہ بیل ایسی

کہ جس پہ کوئی پرندہ بیٹھے

ہمیں سنائے وہ گیت جس سے

ہمارے ذہنوں میں وسعتوں کا خیال جاگے

کوئی تصور سفیر بن کر

تمام دنیا کے بے نواؤں

مشقتوں میں اسیر لوگوں کا

حال اپنے  بریف کیسوں میں بھر کے لائے

کہ ہم بھی دیکھیں کہ ابنِ آدم جہاں کہیں ہے

وہ کس کی ایڑھی کے بوجھ میں ہے

وہ کون دیدہ دلیر ہے

جو ہماری دنیا کو تنگ دستی کا درد دے کر

کہیں زمانے کی رونقوں میں اتر گیا ہے

وہ روگ ایسا ہمارے لوگوں کو دے گیا ہے

کہ شام ہی سے فسردگی کے قدم

دماغوں میں ٹہلتے ہیں

یہ بے سہارا غریب اپنے گھروں کے آنگن

میں بے وفائی کے سرد لمحوں

میں روزو شب کی حدیث سن کر

نہ بولتے ہیں نہ چالتے ہیں

وہ سختیوں کے مزاج سے آشنا

تحمل کی زندگی سے چٹخ گئے ہیں

کبھی مسرت کا ہاتھ شانوں پہ آ رکے گا

یہ سوچتے ہیں

سوادِشب میں کوئی تو ہو گا

نزولِ دن مین کوئی تو ہوگا

جو یہ پکارے گا منصفی کے لئے پکارو

بدن کی ساری رگوں کو کھینچو

کہ منصفی سے

 پمارے آنگن کی ہر کیاری میں پھول ہو گا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *