بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے (حفیظ جونپوری)

بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے

ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے

 

 نہیں مرتے تو ایذا نہیں جھیلی جاتی

اور مرتے ہیں تو پیماں شکنی ہوتی ہے

 

دن کو اک نور برستا ہے مری تربت پر

رات کو چادرِ مہتاب تنی ہوتی ہے

 

لٹ گیا وہ ترے کوچے میں رکھا جس نے قدم

اس طرح کی بھی کہیں راہزنی ہوتی ہے

 

ہوک اٹھتی ہے اگر ضبطِ فغاں کرتا ہوں

سانس رکتی ہے تو برچھی کی اَنی ہوتی ہے

 

پی لو دو گھونٹ کہ ساقی کی رہے بات حفیظ

صاف انکار میں خاطر شکنی ہوتی ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *