کون ہے کس نے پکارا صدا کیسے ہوئی (سرمد صہبائی)

کون ہے کس نے پکارا صدا کیسے ہوئی

یہ کرن تاریکئی شب سے رہا کیسے ہوئی

اک اک پل میں اتر کر سوچتا رہتا ہوں میں

نور کس کا ہے مرے خوں میں ضیا کیسے ہوئی

خواہشیں آئیں کہاں سے کیوں اچھلتا ہے لہو

رُت ہری کیوں کر ہوئی پاگل ہوا کیسے ہوئی

اس کے جانے کا یقیں تو ہے  مگر الجھن میں ہوں

پھول کے ہاتھوں سے یہ خوشبو جدا کیسے ہوئی

وہ مچا ہے غل کہ برہم ہو گئی ہیں صورتیں

کون کس سے یہ پوچھے گا خطا کیسے ہوئی

جسم و جاں کا فاصلہ ہے حاصلِ گردِ سفر

جستجوئے زندگی تیرا پتا کیسے ہوئی

ہنس دیا تھا سن کے وہ سرمد بس اتنا یاد ہے

بات اس کے سامنے لیکن ادا کیسے ہوئی 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *