وہ مجبوری نہیں تھی ، یہ (پروین شاکر)

وہ مجبوری نہیں تھی ، یہ اداکاری نہیں ہے

مگر دونوں طرف پہلی سی سرشاری نہیں ہے

بہانے سے اسے دیکھ آنا پل دو پل کو

یہ فردِ جرم ہے اور آنکھ انکاری نہیں ہے

میں تیری سردمہری سے ذرا بد دل نہیں ہوں

مرے دشمن! ترا یہ وار بھی کاری نہیں ہے

میں اس کے قول پر ایمان لا کے خوف میں ہوں

کہیں لہجے میں تو ظالم کے عیاری نہیں ہے

جہاں اِک روز کھل جائیں ہمارے نام کے پھول

بھرے گلشن میں کیا ایسی کوئی کیاری نہیں ہے

بچھڑنے والے اتنے ہو گئے ہیں شہر در شہر

کہ باقی اب کسی گھر میں عزاداری نہیں ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *