تو نے اے رفیقِ جاں اور ہی گل کھلا دیئے (اعتبار ساجد)

تو نے اے رفیقِ جاں اور ہی گل کھلا دیئے

بخیہ گری کے شوق میں نئے زخم لگادیئے

دستِ ہوا نے ریت پر پہلے بنائے راستے

پھر مرے گھر کے راستے گھر سے ترے ملا دیئے

کتنی تھی اجنبی فضا پہلے پہل فراق میں

درد کے اشتراک نے دوست کئی بنا دیئے

آمدِ یار کی خبر سن کے ہم اہلِ شوق نے

پلکوں سے گرد صاف کی رستے میں دل بچھا دیئے

پوچھا تھا کیا پسند ہے تم کو مری بیاض میں

اس نے جدائیوں کے شعر چن کے مجھ کو سنا دیئے

آخری سنگِ میل تھا سانس اکھڑ چلی تھی مگر

پیشِ خیال تھا کوئی ہم نے قدم بڑھادیئے

ایک ستم ظریف نے صبحِ طرب کے نام پر

اپنا دیا بچا لیا سب کے دیئے بجھا دیئے

کتنا سخن شناس تھا طعنہ دیا تو یوں دیا

آپ کے فن کے رتجگے ہجر نے جگمگا دیئے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *