دل کا کیا ہے وہ تو چاہے گا مسلسل ملنا (پروین شاکر)

 

دل کا کیا ہے وہ تو چاہے گا مسلسل ملنا

وہ ستمگر بھی مگر سوچے کسی پل ملنا

 

واں نہیں وقت تو ہم بھی ہیں عدیم الفرصت

اُس سے کیا ملئے جو ہر روز کہے کل ملنا

 

عشق کی رہ کے مسافر کا مقدر معلوم

شہر کی سوچ میں ہو اور اسے جنگل ملنا

 

اُس کا ملنا ہے عجب طرح کا ملنا جیسے

دشتِ امید میں اندیشے کا بادل ملنا

 

دامنِ شب کو اگر چاک بھی کر لیں تو کہاں

نور میں ڈوبا ہوا صبح کا آنچل ملنا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *