کیا کرے میری مسیحائی بھی کرنے والا (پروین شاکر)

 

کیا کرے میری مسیحائی بھی کرنے والا

زخم ہی مجھے یہ لگتا نہیں بھرنے والا

 

زندگی سے کسی سمجھوتے کے باوصف اب تک

یاد آتا ہے کوئی مارنے ، مرنے والا

 

اُس کو بھی ہم تیرے کوچے میں گزار آئے ہیں

زندگی میں وہ جو لمحہ تھا سنورنے والا

 

اُس کا اندازِ سخن سب سے جدا تھا شاید

بات لگتی ہوئی ، لہجہ وہ مکرنے والا

 

شام ہونے کو ہے اور آنکھ میں اک خواب نہیں

کوئی اس گھر میں نہیں روشنی کرنے والا

 

اسی امید پہ ہر شام بجھائے ہیں چراغ

ایک تارہ ہے سرِ شام ابھرنے والا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *