اٹھے تِری محفل سے تو کس کام سے اٹھے (بیخود دہلوی)

اٹھے تِری محفل سے تو کس کام سے اٹھے

دل تھام کے بیٹھے تھے جگر تھام کے اٹھے

 

دم بھر مِرے پہلو میں انہیں چین کہاں ہے

بیٹھے کہ بہانے سے کسی کام سے اٹھے

 

دنیا میں کسی نے بھی نہ دیکھی یہ نزاکت

اُن سے نہ کبھی حرف مِرے نام کے اٹھے

 

آغازِ محبت میں مزے دل نے اڑائے

پوچھے تو کوئی رنج بھی انجام کے اٹھے

 

دل نذر میں دے آئے ہم اک شوخ کو بیخود

بازار میں جب  دام نہ اس جام کے اٹھے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *