جل پری! جل پری! (سرمد صہبائی)

جل پری اور سورج

جل پری! جل پری!

تو سمندر کی آغوش سے

دھوپ کا ہاتھ تھامے ہوئے

دن کے ساحل پہ چلتی ہے

کیسے صدف در صدف

تیرے پاؤں میں کھِلتی ہے

رنگوں کی بارہ دری

جل پری ! جل پری !

صبح کے صحن میں

رنگ تیرا بدن چوم کر

تتلیوں کا جنم لے کے اڑتے ہیں

چنچل ہوائیں

ترے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے

پرندوں کا بہروپ لے کر نکلتی ہیں

رَس تیری سانسوں کو چھو کر

پھلوں میں اترتے ہیں

کیسی ہے تیرے

پُراسرار جوبن کی جادو گری

جل پری ! جل پری !

دیکھ سورج اُفق کی کگر سے

تجھے دیکھنے کے لیے آسمانوں سے جھکتا ہے

پل بھر ہواؤں کا دم جیسے رکتا ہے

کِھلتے ہوئے پھول کی اوک میں

اوس کی تھرتھری !

جل پری ! جل پری !

بجلیوں کی چمک

بادلوں کی دھمک

چھم چھما چھم چھما چھم برستی گھٹا

 ہچکیاں لے کے چلتی ہے پاگل ہوا

دور تک پھیلتی ایک قوسِ قزح

دھوپ چھاؤں کی آغوش میں ہانپتی

کامنی رس بھری !

جل پری ! جل پری !

شام ڈھلتی ہے

سورج اترتی ہوئی دھوپ کو

اوڑھ کر جا چکا ہے

ہوا بین کرتی ہے

بوندوں کے جگنو بدن پر تڑپتے ہیں

ساحل پہ تنہا کھڑی

اپنی پرچھائیاں دیکھ کیسے ڈری

جل پری !

جل پری !

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *