انہی خوش گمانیوں میں کہیں جان سے بھی نہ جاؤ (احمد فراز)

انہی خوش گمانیوں میں کہیں جان سے بھی نہ جاؤ
وہ جو چارہ گر نہیں ہے اسے زخم کیوں دکھاؤ

یہ اداسیوں کے موسم کہیں رائے گان نا جائیں
کسی زخم کو کریدو کسی درد کو جگاؤ

وہ کہانیاں ادھوری جو نا ہو سکیں گی پوری
انہیں میں بھی کیوں سنائوں انہیں تم بھی کیوں سناؤ ؟

میرے ہمسفر پرانے میں اب بھی منتظر ہو
تمہیں ساتھ چھوڑنا ہے تو ابھی سے چھوڑ جاؤ

یہ جدائیوں کے راستے بڑی دور تک گئے ہیں
جو گیا وہ پھر نا لوٹا میری بات مان جاؤ

کسی بیوفا کی خاطریہ جنون فراز کب تک
جو تمہیں بھلا چکا ہے اسے تم بھی بھول جاؤ . . . . . .

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *